Wednesday, March 17, 2010

دل سے شکوہ ہے نہ تجھ سے ہی شکایت ساقی

دل سے شکوہ ہے نہ تجھ سے ہی شکایت ساقی
تیری چوکھٹ پہ ہی مچلی یہ طبیعت ساقی

گھونٹ دو گھونٹ پیے تھے یونہی چلتے چلتے
عمر بھر ان کی چکانی پڑی قیمت ساقی

ساغرِ مے میں ملایا تھا نجانے کیا کیا
عین مستی میں بھی ہوتی ہے اذیت ساقی

لاج مے خانے کی رکھنی تھی سو ہم نے رکھی
سر کٹانے کی پرانی تھی روایت ساقی

لوگ کردار نبھاتے ہی فنا ہو جائیں
تیرے افسانے کی بنتی نہیں صورت ساقی

بعض کو جام و سبو سے نہیں فرصت ملتی
بعض کے کاسے میں ازلوں کی حقارت ساقی

No comments:

Post a Comment