دل سے شکوہ ہے نہ تجھ سے ہی شکایت ساقی
تیری چوکھٹ پہ ہی مچلی یہ طبیعت ساقی
گھونٹ دو گھونٹ پیے تھے یونہی چلتے چلتے
عمر بھر ان کی چکانی پڑی قیمت ساقی
ساغرِ مے میں ملایا تھا نجانے کیا کیا
عین مستی میں بھی ہوتی ہے اذیت ساقی
لاج مے خانے کی رکھنی تھی سو ہم نے رکھی
سر کٹانے کی پرانی تھی روایت ساقی
لوگ کردار نبھاتے ہی فنا ہو جائیں
تیرے افسانے کی بنتی نہیں صورت ساقی
بعض کو جام و سبو سے نہیں فرصت ملتی
بعض کے کاسے میں ازلوں کی حقارت ساقی
No comments:
Post a Comment