ایک کم ظرف کو دکھایا دل
آگ سے راکھ ہی بنایا دل
ایک شمع جلائی تھی دل میں
دل کے مہماں نے ہی جلایا دل
دردِدل کی دوا عبث ہے جی
ٹوٹکوں نے سگوں دکھایا دل
ضد لگاِئی ہے ساری دنیا سے
روٹھ کر سب سے اک منایا دل
نام لے کر مرا ڈرے چاہت
میں کہاں تھا کہاں پہ لایا دل
اب اسیری میں سانس لوں کیسے
باندھ کر مجھ کو چھوڑ آیا دل
تیرے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
پھر بھی اک بت تراش لایا دل
کل محبت پہ جان دیتا تھا
آج نفرت پہ اتر آیا دل
No comments:
Post a Comment