Monday, March 8, 2010

ایک کم ظرف کو دکھایا دل

ایک کم ظرف کو دکھایا دل
آگ سے راکھ ہی بنایا دل

ایک شمع جلائی تھی دل میں
دل کے مہماں نے ہی جلایا دل

دردِدل کی دوا عبث ہے جی
ٹوٹکوں نے سگوں دکھایا دل

ضد لگاِئی ہے ساری دنیا سے
روٹھ کر سب سے اک منایا دل

نام لے کر مرا ڈرے چاہت
میں کہاں تھا کہاں پہ لایا دل

اب اسیری میں سانس لوں کیسے
باندھ کر مجھ کو چھوڑ آیا دل

تیرے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
پھر بھی اک بت تراش لایا دل

کل محبت پہ جان دیتا تھا
آج نفرت پہ اتر آیا دل

No comments:

Post a Comment