Friday, September 30, 2011

خزاں بہاروں پہ آ کے ٹھہری، یہ امتحاں تھا محبتوں کا

بچھڑ چکے ہیں تمام راہی، فقط ہے رستے کی گرد باقی
نہ دل رہا نہ ہی دل کا مہماں، مگر ہے سینے میں درد باقی

خزاں بہاروں پہ آ کے ٹھہری، یہ امتحاں تھا محبتوں کا
پرندے شاخوں سے اڑ گئے سب مگر رہا نخلِ زرد باقی

مرے تصور سے تیری یادیں بھی باری باری ہوئی ہیں رخصت
نہ آس کوئی نہ پاس کوئی،  بس ایک ہے آہِ سرد باقی

ہمارے دل کی تمام الجھن تمہاری چاہت کے واسطے تھی
تمہی نے دامن چھڑا لیا جب، نہ دل بچا نہ ہی درد باقی

Thursday, September 29, 2011

وہ غمگسار یقینا کسی عذاب میں ہے

کئی دنوں سے ہے خاموش کچھ خبر ہی نہیں
وہ غمگسار یقینا کسی عذاب میں ہے

Wednesday, September 28, 2011

تمہارا چہرہ کسی اجنبی نے پہنا ہے

جسے فلک نے سنوارا وہ شخص اور ہی تھا
جو چاند سے بھی تھا پیارا  وہ شخص اور ہی تھا

تمہاری راہ سے گزرے بہت سے لوگ مگر
جو ہمسفر تھا تمہارا  وہ شخص اور ہی تھا

محبّتوں کے مراسم سبھی کے ساتھ سہی
جو جان میں تھا اتارا  وہ شخص اور ہی تھا

گزار لیتے تھے ہم وقت سب کے ساتھ مگر
نہ جس کے بن تھا گزارا  وہ شخص اور ہی تھا

میں بول بول کے تھک جائوں کوئی سمجھے نہ!
جو جان لیتا اشارہ  وہ شخص اور ہی تھا

تمہارا چہرہ کسی اجنبی نے پہنا ہے
جو دل جگر تھا ہمارا  وہ شخص اور ہی تھا

وہ پاگلوں سا مرے ارد گرد پھرتا تھا

گئے وہ دن کہ مری اک نگاہ کے بدلے
وہ پاگلوں سا مرے ارد گرد پھرتا تھا

وگرنہ جیتا ہے ہر کوئی زندگی اپنی

ہمیں گماں ہے کہ  ہم ایک ساتھ رہتے ہیں
وگرنہ جیتا ہے ہر کوئی زندگی اپنی

قسم خدا کی محبت کے سلسے ہیں عجیب

قسم خدا کی محبت کے سلسے ہیں عجیب
جو جان سے ہو قریب اس کو اجنبی کہنا!

Tuesday, September 27, 2011

تلاشِ رزق نے سب فیصلے بدل ڈالے

کچھ اور سوچ کے آیا تھا اس جہاں میں مگر
تلاشِ رزق نے سب فیصلے بدل ڈالے

ندی کا پانی ہوں گدلا مجھے نہ کیجے گا

ندی کا پانی ہوں گدلا مجھے نہ کیجے گا
کہ میری راہ میں تم جیسے اور بھی ہیں ابھی

دو چار سال جو ہوتے تو مان جاتے ہم

 وہ آنکھ ہو گی پرائی ، سہی نہ جائے گی
اسیرِ دل کی رہائی سہی نہ جائے گی
دو چار سال جو ہوتے تو مان جاتے ہم
یہ عمر بھر کی جدائی سہی نہ جائے گی

Saturday, September 24, 2011

جو خواب آنکھ نے دیکھا وہ اس زمیں کا نہ تھا


جنوں تھا عشق تھا تجھ سے بڑی محبت تھی
جو شاعری میں لکھی جائے ایسی چاہت تھی
تجھے گنوا دیا حالات کا ستم کہیے
کہ اپنے بیچ میں بس دو قدم مسافت تھی
جو خواب آنکھ نے دیکھا وہ اس زمیں کا نہ تھا
کہ ایسے خواب کی تعبیر تھی تو جنت تھی!
تو کائنات کی وسعت میں رہ گیا تنہا
کہ تیری جیب میں دولت نہ تھی محبت تھی
کسی کے ساتھ میں چلتا تو کس طرح چلتا
کہ پیار کرنا بھی دل سے نہ تھا ضرورت تھی
جسے کرید کے دیکھا وہی ادھورا تھا
اسی لیے مجھے تنہائیوں کی عادت تھی
میں اس جہاں کا نہیں تھا اسی لیے شاید
مری حیات مسلسل مجھے اذیّت تھی

Thursday, September 22, 2011

مگر یہ کیا ہوا ہم کو

تمہیں ہی سوچتے رہنا
بہت بے کار سے پھرنا
بڑے ہی سست سے ہو کر
خیالوں میں تجھے لا کر
کھٹولے پر پڑے رہنا
یہ عادت تو کبھی نہ تھی
کہ ہم تو زندگانی کے سمندر سے
دوانہ وار لڑتے تھے
بہائو کے مخالف بھی
بڑے گردے سے چلتے تھے
مگر یہ کیا ہوا ہم کو
کہ جب سے تم سے بچھڑے ہیں
یہ بازو ڈھیلے چھوڑے ہیں
سمندر سے یہ کہتے ہیں
ہمیں پاتال تک لے چل
کہ ہم نے موت سے پہلے زمیں کی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونا ہے
دل وحشی کا مفروضہ !
کہ ہم کو ڈوبتا دیکھے تو شاید لوٹ آئے وہ!
دلِ وحشی تو پہلے بھی
بہکتا تھا بھٹکتا تھا
مگر یہ کیا ہوا ہم کو

ہر اک لمحہ خیال آئے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا

ہر اک لمحہ خیال آئے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا
یہ حسرت ہی رہی ہائےکہ تو ہوتا تو یوں ہوتا
زمانہ جب کبھی ہم سے نہایت بے رخی کر دے
تو دل رہ رہ کے جتلائے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا

Sunday, September 18, 2011

یہ عمر لمحوں میں کٹتی بڑی طویل لگے

تری کمی کا ہے احساس مجھ کو پر لمحہ 
یہ عمر لمحوں میں کٹتی بڑی طویل لگے

Saturday, September 17, 2011

سب غرض کے بندے ہیں

دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں
یہ عشق محبت تو
رسمیں ہیں دوانوں کی
باتیں ہیں فسانوں کی
تم پیار کے سودائی
کس بھول میں پھرتے ہو
اس مطلبی دنیا میں
ہو شخص ہی تنہا ہے
ہر شخص ہے ہرجائی
سب وعدے محبت کے
اور قسمیں نبھانے کی
لفظوں کے پلندے ہیں
اور لفظ منافق ہیں
ہرشخص نے جسم اپنا
کندھے پہ اٹھایا ہے
اس جسم کو ہر لمحہ
سانسوں کی ضرورت ہے
کھانا ہے کبھی پینا
اٹھ کرہے کبھی چلنا
محتاج جو اتنا ہو
اس شخص پہ تکیہ کیا
اس خاک کے پتلے پر
کرتے ہو بھروسہ کیا
اس وقت نظرآتے
دو چار جو ساتھی ہیں
حاجات کے مارے ہیں
موسم کے پرندے ہیں
اڑجائیں گے سب اک دن
دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں

Wednesday, September 14, 2011

اس کی چاہت مجھے شہزاد بنانے پہ مصر ہے

دل جنوں خیزترے خواب سجانے پہ مصر ہے
اور تقدیر اسے نیچا دکھانے پہ مصر ہے
ایک بے کار سا انسان ہوں گلیوں میں پھروں
اس کی چاہت مجھے شہزادہ بنانے پہ مصر ہے
شاعری پیار کی بھیجے وہ مجھے رات گئے
درحقیقت وہ مرے خواب میں آنے پہ مصر ہے
میں فقط چاند ہوں ندیا کا مجھے چھو کے نہ دیکھ
کیوں مرے عکس کو پانی میں نچانے پہ مصر ہے
اب محبت نہیں ہوتی، میں نے کوشش تو بڑی کی
دل پرانے کسی رشتے کو نبھانے پہ مصر ہے
ہر کوئی پیاز کی صورت ہے کئی پرتوں میں
ہر کوئی اپنی حقیقت کو چھپانے پہ مصر ہے

Monday, September 12, 2011

جنم کا دن مبارک ہو

سبھی جب بھول جاتے ہیں
تو اس کو یاد رہتا ہے
وہ اک موہوم سا رشتہ بہت پرواہ کرتا ہے
برس کے تین سو پینسٹھ دنوں کے بعد بھی دیکھو
گھڑی بارہ بجاتی ہے
تواک سیکنڈ سے پہلے ہی
اسی کی کال آتی ہے
جنم کا دن مبارک ہو""
اسےمجھ سے محبت ہے
مگر شاید!؟

جسے تم پیار کہتے ہو

جسے تم پیار کہتے ہو وہ افسانہ ہے منٹو کا
کہاں پر ختم ہو جائے کوئی بتلا نہیں سکتا

Sunday, September 11, 2011

سانس چلتی ہے چلتے جاتے ہیں

سانس چلتی ہے چلتے جاتے ہیں
وقت کے ساتھ بہتے جاتے ہیں
کوئی سمجھا کبھی نہ سمجھے گا
دل سے مجبور کہتے جاتے ہیں
جھوٹ بولا دغا دیا اس نے
بس یہی بات لکھتے کاتے ہیں
وقت مرہم سہی مگر دیکھو
زخم ہر روز بڑھتے جاتے ہیں
دل دکھا اس قدر محبت میں
اشک بہتے ہیں بہتے جاتے ہیں
نبض چلتی ہے دل دھڑکتا ہے
شور ہوتا ہے سنتے جاتے ہیں
وہ جو بت کو خدا سمجھتے تھے
سر زمیں پر پٹختے جاتے ہیں
ہے ڈراتا ہمیں اکیلا پن
اپنے اندر ہی گھٹتے جاتے ہیں
زندگی سلطنت مقدر کی
ہم مقدر سے لڑتے جاتے ہیں
عشق مرتا نہیں مگر ریحان
عشق میں لوگ مرتے جاتے ہیں

جب تلک یہ سانسیں تھیں

جب تلک یہ سانسیں تھیں
چیختے رہے ہم تم
کیا ہوا مقدر کا
کیا ملا شکایت سے
قسمتوں کی تختی کو
زندگی کی سختی کو
جھیلنا ہی پڑنا تھا
جھیلتے رہے ہم تم
وقت کے سمندر میں
عمر کی حقیقت کیا
اس جہانِ بے حد میں
آدمی کی وقعت کیا
آسماں کی رفعت تک
ہم سے ناتوانوں کا
شور کب پہنچنا تھآ
لیکن اس حقیقت کا
کیا کریں کہ خاکی ہیں
دل میں درد رہتا ہے
درد کی روایت کو
پیٹتے رہے ہم تم
جب تلک یہ سانسیں تھیں
چیختے رہے ہم تم

Friday, September 9, 2011

غمزدہ اور اجنبی آنکھیں

غمزدہ اور اجنبی آنکھیں
مجھ کو لگتی نہیں تری آنکھیں
پہروں باتیں کریں خیالوں میں
سامنے کچھ نہ بولتی آنکھیں

یہ زندگی

یہ زندگی
جس کے بھی حوالے کی
وہی کھیلنے لگا اس کے ساتھ
سو آخر مایوس ہو کر
بہت مجبور ہو کر
محدود کر لیا خود کو
بس اپنے آپ تک!

Thursday, September 8, 2011

کس قدر اجنبی لگتی ہیں وہ آنکھیں اب ریحاں

وہ جو اپنا تھا وہی غیر سا لگتا کیوں ہے
اس کی آنکھوں میں کسی اور کا چہرہ کیوں ہے
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تری انجان نظر
بخدا جان کے انجان سا بنتا کیوں ہے
دوغلے نینوں میں کچھ خواب ہمارے بھی تو تھے
غیر کا ہو کے تو ماضی سے مکرتا کیوں ہے
اس محبت نے کسی در کا نہ چھوڑا ہم کو
ریگِ تنہائی ہی مجنوں کا نصیبہ کیوں ہے
کس قدر اجنبی لگتی ہیں وہ آنکھیں اب ریحاں
پیار گر روح ہے تو پھر ایسے بدلتا کیوں ہے

ایک مدت سے میں نے سانسوں کو روکا ہوا ہے

تری امّید مجھے بوڑھا نہ ہونے دے گی
ایک مدت سے میں نے سانسوں کو روکا ہوا ہے

Wednesday, September 7, 2011

وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا

وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا
دیکھنے کو نظر کے پاس رہے
رات بھر چھت پہ میرے ساتھ رہے
لیکن اس کو پکڑتا نا ممکن
---------------------
پہروں باتیں کرے خیالوں میں
آتا جاتا رہے وہ خوابوں میں
وہ مرا ہے کہ جیسے خواب مرا
----------------------
بند مٹھی میں بند کچھ بھی نہیں
گال پھولے ہوا بھری ان میں
ہر شرارت میں اک خیانت ہے
زندہ رہنا کوئی سہل تو نہیں
اس کی یادوں میں کچھ سکون سا ہے
ورنہ جینے میں جی لگے نہ مرا
وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا

وہ سب کچھ ہے مگر میرا نہیں ہے

جہاں کی ساری اچھی باتیں اس میں
وہ سب کچھ ہے بس اک میرا نہیں ہے

Tuesday, September 6, 2011

کیسے ہوتے ہیں وہ محبوب جو مل جاتے ہیں

تو نظرآئے تو اکثر یہ خیال آتا ہے
کیسے ہوتے ہیں وہ محبوب جو مل جاتے ہیں

Monday, September 5, 2011

بھیک سانسوں کی طلب کرتے گداگر ہم ہیں

ایک انجان مسافت کے مسافر ہم ہیں
بھیک سانسوں کی طلب کرتے گداگر ہم ہیں

اب زمانے کے حوالے ہیں توغم ہیں ہم ہیں

شوقِ تحریر مگر ہاتھ قلم ہیں ہم ہیں
راستہ گم ہے مگر تیز قدم ہیں ہم ہیں
عقل کے دیس میں دیوانے کدھر جائیں بھللا
دل جنوں خیز پہ تعزیروستم ہیں ہم ہیں
ہاتھ میں تلخیِ دنیا کا ہے زہرِ قاتل
آنکھ میں خواب کے مضمون رقم ہیں ہم ہیں
انتہا یہ کہ مچل لیتے ہیں دل ہی دل میں
ورنہ دن رات جدائی کے الم ہیں ہم ہیں
تیرے نینوں میں بسا کرتے تھے اچھے دن تھے
اب زمانے کے حوالے ہیں توغم ہیں ہم ہیں