Saturday, September 17, 2011

سب غرض کے بندے ہیں

دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں
یہ عشق محبت تو
رسمیں ہیں دوانوں کی
باتیں ہیں فسانوں کی
تم پیار کے سودائی
کس بھول میں پھرتے ہو
اس مطلبی دنیا میں
ہو شخص ہی تنہا ہے
ہر شخص ہے ہرجائی
سب وعدے محبت کے
اور قسمیں نبھانے کی
لفظوں کے پلندے ہیں
اور لفظ منافق ہیں
ہرشخص نے جسم اپنا
کندھے پہ اٹھایا ہے
اس جسم کو ہر لمحہ
سانسوں کی ضرورت ہے
کھانا ہے کبھی پینا
اٹھ کرہے کبھی چلنا
محتاج جو اتنا ہو
اس شخص پہ تکیہ کیا
اس خاک کے پتلے پر
کرتے ہو بھروسہ کیا
اس وقت نظرآتے
دو چار جو ساتھی ہیں
حاجات کے مارے ہیں
موسم کے پرندے ہیں
اڑجائیں گے سب اک دن
دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں

No comments:

Post a Comment