Monday, October 31, 2011

بوجھ جینے کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں

بوجھ جینے کا  اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ہم کہ بگڑی کو بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ہر طرف بت ہیں خدایا تری دنیا میں یہاں
عشق والے تو سناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے وہ کچھ خواب دکھا جاتا ہے
ہم پھر اس دل کو مناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
پہلے کرتے ہیں محبت کے ہزاروں دعوے
پھر تعلق کو نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
تیری دنیا سے بہت دور نکل آیا ہوں
اب ترے خواب بھی آتے ہوئے تھک جاتے ہیں

Thursday, October 27, 2011

مگر میں کیا کروں مجھ کو یہ جھوٹ بھی ہے پسند

میں جانتا ہوں کہ وعدے یہ جھوٹ ہیں سارے
مگر میں کیا کروں مجھ کو یہ جھوٹ بھی ہے پسند

Wednesday, October 26, 2011

تلاشِ رزق میں نکلے تھے زندگی کے لیے

تلاشِ رزق کو نکلے تھے زندگی کے لیے
اسی تلاش میں ہم زندگی گنوا آئے

Monday, October 24, 2011

لوگ ہر روز نئی ریت بنا دیتے ہیں

پہلے جس بات پہ کھلتی تھیں زبانیں سب کی
اب اسی بات پہ سب آنکھ جھکا لیتے ہیں
کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانے کا مزاج
لوگ ہر روز نئی ریت بنا دیتے ہیں

ہم نے ااک عمر زمانے سے لڑائی رکھی

ہم نے ااک عمر زمانے سے لڑائی رکھی
تھک گئے جب تو زمانے کا ہی حصہ ہوگئے

اس سے بہتر بھی تو جینے کے بہانے ہوں گے

اس سے بہتر بھی تو جینے کے بہانے ہوں گے
ہم کو فی الحال ترے خواب کی دنیا ہے بہت

سانسیں آتی ہیں ٹھہرتی ہیں چلی جاتی ہیں

سانسیں آتی ہیں ٹھہرتی ہیں چلی جاتی ہیں
خالی کمروں میں بھٹکتی ہوں ہوائیں جیسے

زندہ رہنے کی تگ و دو میں ہیں مصروف سبھی

زندہ رہنے کی تگ و دو میں ہیں مصروف سبھی
ورنہ دنیا سے کسی کو بھی کوئی کام نہیں

جو بنا چاہے ملا مجھ کو وہی اچھا تھا

جو بنا چاہے ملا مجھ کو وہی اچھا تھا
میری چاہت میں کوئی خاص برائی/خرابی ہےشاید

Friday, October 21, 2011

اب نئی زباں دے دے

پچھلے کچھ مہینوں سے
کچھ بھی لکھ نہیں پاتا
جب بھی لکھنے بیٹھوں میں
لفظ ہی نہیں ملتے
کشمکش عجب سی ہے
فکر تذبذب سی ہے
اتنی الجھی سوچوں کو
لفظوں میں بھروں کیسے
گول مول سے جذبوں کو
باتوں میں کہوں کیسے
خواب ہیں اچھوتے سے
لفظ ہیں کہ سادہ سے
صدیوں کے گھسے ہوئے
حالِ دل سنانے کو
اب نئی زباں دے دے!

Thursday, October 20, 2011

مٹھی بھر لفظ ہیں دنیا کی زبانوں میں یہاں

مٹھی بھر لفظ ہیں دنیا کی زبانوں میں یہاں
اپنے جذبات ترے سامنے لائوں کیسے

Monday, October 17, 2011

یوں ہی ناحق ہمیں بدنام نہ کرنا یارو

یوں ہی ناحق ہمیں بدنام نہ کرنا یارو
عشق سے بھی نہیں حالات بدلنے والے

اک مسلسل خیال کی صورت

اک مسلسل خیال کی صورت
وہ مرے ساتھ ساتھ رہتا ہے

سہما سہما ڈرا ڈرا ہے دل

سہما سہما ڈرا ڈرا ہے دل
دنیا والوں سے تھک چکا ہے دل
ضبط کرنے کی مشق کرتا رہا
ضبط میں ہی تھا جب مرا ہے دل
قید ہے جبر ہے تسلط ہے
سانس لیتے بھی ڈر رہا ہے دل
عشق کے نام پر بھی رسمیں ہیں
کیسے لوگوں میں آ گیا ہے دل
سارے خوابوں کو دفن کر کے بھی
روز تعبیر ڈھونڈتا ہے دل

Sunday, October 16, 2011

دو چار دن کی ہی قربت میں ٹوٹ جائے سحر

دو چار دن کے تعلّق  میں ٹوٹ جائے سحر
قلعی کیا ہوا برتن ہرایک شخص یہاں

Saturday, October 15, 2011

محبتیں بھی یہاں کی، یہاں کی رسموں سی

محبتیں بھی یہاں کی، یہاں کی رسموں سی
جنہیں نبھاتے ہوئے دل کی موت ہو جائے

بس ایک تیرے نہ ملنے سے کچھ کمی سی ہے

بس ایک تیرے نہ ملنے سے کچھ کمی سی ہے
وگرنہ شکر خدا کا کہ انتخاب ہوں میں

Wednesday, October 12, 2011

مری جبین پہ تختی ہے میرے نام کی بس

مری جبین پہ تختی ہے میرے نام کی بس
وگرنہ عمر کا ہر پل ہے روزگار کے نام


-------------------------------------------
میں چاہتا ہوں اسے پر یہی تو کافی نہیں

Tuesday, October 11, 2011

درد تو لازمی حصّہ ہے محبت کا ریحان

داغ ماتھے کا تو میلوں سے جلا دیتا ہیں
دیکھنے والا کئی باتیں بنا دیتا ہیں

سچ کو اتنا بھی نہ معیار بنائو یارو
سچ تلکلف کے سبھی رشتے مٹا دیتا ہے

خول چہرے پہ چڑھایا ہے یہاں لوگوں نے
رنگ بہ جائے تو ہر روپ ڈرا دیتا ہے

آئینہ دیکھ کے شرمندگی ہو گی کیوں کر
آئینہ میرا مرے عیب چھپا دیتا ہے

درد تو لازمی حصّہ ہے محبت کا ریحان
پیار انسان کو مجرم بھی بنا دیتا ہے

Monday, October 10, 2011

میں جسے راہ میں چھوڑ آیا تھا رستوں کی طرح

میں جسے راہ میں چھوڑ آیا تھا رستوں کی طرح
اب وہی شخص مری خاک اڑاتا آئے

ہمارا سچ ہی ہمارے خلوص کا دشمن

سزا ملی گی محبت میں راست گوئی کی
ہمارا سچ ہی ہمارے خلوص کا دشمن

مرے مزاج کی دنیا نہ میرے جیسے لوگ

مرے مزاج کی دنیا نہ میرے جیسے لوگ
بھلا میں کیسے زمانے کے ساتھ چلا پاتا

غزل جیت سنگھ

پیار کے راگ الاپنے والا
بکھرے ہوئوں کو سنبھالنے والا
درد کو لفظوں  میں بند کر کے
آسماں کی طرف اچھالنے والا
جاگتی آنکھوں، روتے دلوں کو لوریوں میں سلانے والا
زندگی بھر بے وفائی کے خلاف
نوائے احتجاج اتٹھا نے والا
آج ایسے پڑا ہے جیسے
ستر سالوں کی تھکن اتار راہا ہو
ابھی کچھ پل میں ارتھی اٹھ جائے گی اس کی
جگجیت نام تھا اس کا
جگجیت سینگھ
غزل جیت سنگھ

Saturday, October 8, 2011

کچھ تو سوچا ہے زندگی نے ضرور

کچھ تو سوچا ہے زندگی نے ضرور(zindagi ne kush tou shocha ho ga)
اس قدر رائگاں نہ گزرے گی

آئینہ کچھ بتا نہیں پاتا

شکل میری مجھے دکھائے کوئی
آئینہ کچھ بتا نہیں پاتا

جو بھٹکے ہیں تو وحشت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

کریں کس سے شکایت کیا ، یہ رونا عمر بھر کا ہے
جو سچ پوچھو محبت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

ہمیں ادراک گر ہوتا سرابوں میں بھٹکتے کیوں
جو بھٹکے ہیں تو وحشت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

فقط اک پل کی لغزش نے زمیں پر ہم کو دے مارا
کریں اب یاد جنّت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

نظر کی ایک چنگاڑی مرے خرمن کو لے ڈوبی
ہوئے جب راکھ حسرت کیا،  یہ رونا عمر بھر کا ہے

مرے چہرے پہ رونق تھی تری قربت کا صدقہ تھا
تری فرقت کی دولت کیا ، یہ رونا عمر بھر کا ہے

ہر اک لمحہ کمی تیری بسر ہو زندگی کیسے
کریں تشریحِ فرقت کیا یہ رونا عمر بھر کا ہے

Thursday, October 6, 2011

بھر کے جام خود بخود ہی چھلک جائے گا

بھر کے وہ خود بخود ہی چھلک جائے گا
پینے والے کی قسمت اگر آ ملے

زندگی تیرے قدموں میں گر جائے گی
آگے تیری محبت جھکے نہ جھکے

لمحہ لمحہ تری ضرورت ہے

زدگی کس طرح بسر ہوگی
لمحہ لمحہ تری ضرورت ہے

Wednesday, October 5, 2011

زندگی تیری شرائط پہ ابھی سوچتا ہوں

وقت رکتا نہیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
پھول کیسا بھی ہو اک روز بکھر جاتاہے

لالی چہرے کی تروتازہ گلابوں جیسی
عمر کی دھوپ میں ہر رنگ اتر جاتا ہے

چودھویں رات میں ہر طرف تجلّی جس کی
کون جانے کہ اماوس میں کدھر جاتاہے

زندگی تیری شرائط پہ ابھی سوچتا ہوں
دل دھڑکتے ہوئے کچھ دیر ٹھہر جاتا ہے

مجھ کو منظور نہیں تجھ سے بچھڑکر جینا
پھر بھی ہر روز مرا دن کیوں گزر جاتا ہے

اس جہاں پر کبھی دل سے نہ بھروسا کیجے
وقت آنے پہ مقدّر بھی مکر جاتا ہے

ایک دنیا تمہارے ساتھ سہی

ایک دنیا تمہارے ساتھ سہی
ایک دنیا ہے میری اپنی بھی
تم نے جھٹکا تو کوئی بات نہیں
اپنی دنیا میں لوٹ آئوں گا

باپ بن کر پتہ چلے گا تجھے

باپ بن کر پتہ چلے گا تجھے
باپ کتنا شفیق ہوتا ہے

زیادہ اونچے خوابوں والے

زیادہ اونچے خوابوں والے
جلدی ہی تھک جاتے ہیں
قسطوں قسطوں جینے والے
اک جھٹکے سے مر جاتے ہیں
ہم سے ناداں، عشق کے سائل
رستوں میں ہی کھپ جاتے ہیں
عشق محبت خواب کی باتیں
خواب دغا کر جاتے ہیں

Saturday, October 1, 2011

میں نے سو بار کہا یوں نہیں جینا میں نے

میں نے سو بار کہا ایسے نہیں جینا ہے
وقت پھر بھی مرے دن رات لیے جاتاہے!