Friday, December 12, 2014

دیکھوں اسے تو سوچوں، رکھ لوں حنوط کر کے

بے مثل چہرہ ایسا دنیا میں پھر نہ ہوگا
دیکھوں اسے تو سوچوں، رکھ لوں حنوط کر کے

Wednesday, December 10, 2014

عشق بس سے نکلتا جاتا ہے

ایسا لگتا ہے جان جائے گی
عشق بس سے نکلتا جاتا ہے

آج دیکھا  ہےاس کو برسوں میں
آج کی شب چلے گی برسوں تک

اتنا بھی وقت میسر نہیں اس عہد میں اب


اتنا بھی وقت میسر نہیں اس عہد میں اب!!!
یاد ہی کرلے کسی شخص کو جی بھرکے کوئی

یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں

آنکھ کا رعب وہی قتل کا انداز وہی
ہم سے بدلے ہیں بہت آپ ذرا بدلے نہیں
نرم آواز وہی دائرہ سے ہونٹ وہی
یہ مہ و سال ترے پاس سے بھی گزرے نہیں


یہ زمانہ گو ترا نام تلک بھول چکا
ایک شخص آج بھی سمجھے ہے زمانہ تجھ کو

آس پاس اس کے جو رہتے ہیں سبھی اندھے
کیسے ممکن ہے اسے دیکھ کے بھی عشق نہ ہو


کس قدر سستا و ارزاں ہے زمانے کے لیے
ہائے وہ شخص جسے یاد بھی صرفے سے کروں


میری آنکھوں سے کبھی خود کو اگر دیکھ لے وہ
قسم لے لیجیے آئینہ تلک توڑدے وہ
!اتنا نایاب ہے کم یاب ہے وہ حسن کہ بس
 آنکھ  جھپکائیے !!!  کہتا ہے نظر باندھ کے وہ




Thursday, December 4, 2014

زندگی فرض نہ ہوتی تو قضا کر لیتے

مرتی ہوئی زبان کا اک لفظ ناتواں
ہر روز پوچھتا ہے ابھی کتنی سانسیں ہیں؟؟

عشق ہیجان کی شدت سے بھلے مر جائے
حسن ظالم ہے اداوں سے نہ باز آئے گا

ایسے حالات میں تو عمر ہی ضائع ہو گی
زندگی فرض نہ ہوتی تو قضا کر لیتے