Wednesday, December 28, 2011

دونوں ملتے ہیں تھوڑی دیر کو بس!!!‬

حسن کچے گھڑے کی مانند ہے‬
‫عشق موجِ چناب کی صورت‬
‫حسن کی زندگی ہے دو پل کی‬
‫عشق رکتا نہیں گزر جائے‬
‫دونوں ملتے ہیں تھوڑی دیر کو بس!!!‬

Tuesday, December 27, 2011

زندگی میری مگر اس کو گزارے گا کوئی

سابس آٹکی ہے تہہِ دستِ حنائی یارو
وصل کی قید سے بہتر تھی جدائی یارو

زندگی میری مگر اس کو گزارے گا کوئی
مجھ پہ الفت نے یہ تعزیر لگائی یارو

ایک ہی خواب کی تعبیر ملی تھی مجھ کو
اور  پھر زندگی بھر نیند نہ آئی یارو

نظق پایا ہے مگر نظق شناسا نہ ملا
بات جو لب پہ رکی خود کو سنائی یارو

محرمِ دل کی تمنا میں بھٹکتا ہی پھروں
دل میں غم ہاتھ میں کاسہ گدائی یارو

Wednesday, December 21, 2011

کوتوالوں کی طرح کھینچ کے لایا ہوں اسے

شہر کا شہر ہی بن بیٹھا تھا قاتل جاناں
ہم کو کرنا ہی پڑا تجھ سے تغافل جاناں

کوتوالوں کی طرح کھینچ کے لایا ہوں اسے
در ترا چھوڑ کے آتا ہی نہ تھا دل جاناں

نائو چاہت کی بھلا پار لگاتے کیسے
ہر بھنور ہم کو لگا دور سے ساحل جاناں

باریاں باندھ کے بیٹھے ہیں سبھی جانے کو
فرق اتنا ہے کوئی آج کوئی کل جاناں

جب تلک سانس تھی خوابوں کے تعاقب مییں رہے
خواب ہی خواب ہیں مری عمر کا حاصل جاناں

تم کو چھو لوں تو یقیں  آئے کہ زندہ ہوں میں
تم کو پا لوں تو میں ہو جائوں مکمل جاناں

کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ

روٹھ کر اور سنور جائے گا
رنگ گالوں پہ بکھر جائے گا
کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ
سیدھا سینے میں اتر جائے گا

Tuesday, December 20, 2011

لاج کا خوف بھی پروائی بھی

دل یہی سوچ کے گھر جائے نہ
خواب آنکھوں سے مکر جائے نہ
روٹھ کر اور سنور جائے نہ
سرخی گالوں پہ بکھر جائے نہ
آنکھوں آنکھوں میں محبّت ابھری
آنکھوں آنکھوں میں اتر جائے نہ
دل پہ ہر سمت ہزاروں پہرے
عشق گھٹ گھٹ کے ہی مر جائے نہ
لاج کا خوف بھی پروائی بھی
پھول چاہت کا بکھر جائے نہ
کپکپاتا ہوا ہنستا چہرہ
کیسے سینے میں اتر جائے نہ?

اس سے کہنا کہ خفا نہ ہونا

اس سے کہنا کہ خفا نہ ہونا
روپ کچھ اور نکھر جائے گا

Sunday, December 18, 2011

کاغزی پھول سے خوشبو کی تمنا ہے عبث

کاغزی پھول سے خوشبو کا گلہ کرتے ہو
تم بھی نادان ہو اے دوست یہ کیا کرتے ہو
روز شکوے بھی کرے کوئی تو کس سے آخر
تم صحیح کرتے ہو قسمت کو برا کرتے ہو

دفن کر دوں کہ جلا دوں کہ سنبھالے رکھوں

دفن کر دوں کہ جلا دوں کہ سنبھالے رکھوں
میری آنکھوں میں ہیں کچھ خواب جو دم توڑ گئے

Saturday, December 17, 2011

ہم ہی لوٹ آئیں گے دیوار سے ٹکرا کر سر

ہم ہی لوٹ آئیں گے دیوار سے ٹکرا کر سر
اے ستم گر ترا دروازہ نہ کھل پائے گا
وہ اگر مجھ سے خفا ہے تو مجھے چھوڑ بھی دے
گر ملاقات نہ ہو خواب میں آجائے ہے

ہمارے پاس تھے کچھ خواب ہم وہ بیچ آئے

پرانے مال کو نیلام کر رہے تھے لوگ
ہمارے پاس تھے کچھ خواب ہم وہ بیچ آئے

Tuesday, December 13, 2011

ماں

میں جھولی بھر کے خوشیاں
گھر میں آیا ہوں
مگر میں کیا کروں گھر میں میری ماں ہی نہیں

مرے ہی جیسے زمیں زاد "چاند" سمجھیں مجھے

اندھیری رات میں تنہا بھٹکتا پھرتا ہوں
مرے ہی جیسے زمیں زاد "چاند" سمجھیں مجھے

میں شرمسارِ قلم ہوں

تھا جال ریشمی دھاگوں کا جو وہ بنتا گیا
میں خوشنمائی کے دھوکے میں قید ہوتا گیا

بس ایک شخص کو قدرت تھی سارے لمحوں پر
کبھی ہنساتا رہا اور کبھی رلاتا گیا

تھا راستوں کا چنائو کہ کھیل قسمت کا
میں جس طرف بھی چلا تجھ سے دور ہٹتا گیا

یہ بات سچ ہے کہ دل کو سکون غم نے دیا
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ غم ہی ملتا گیا

تمام عمر میں خواہش کو زیر کرتا رہا
حقیقتا اسی کوشش میں شوق بڑھتا گیا

میں شرمسارِ قلم ہوں کہ جب بھی لکھنے لگا
اذیّتِ غمِ جاں کا بین کرتا گیا

Sunday, December 11, 2011

کھارے پانی کے سمندر میں جزیرہ تھا مرا

بھول جانا ہی تھا اک روز حقیقت تھی یہی
زندہ رہنا تھا کسی طور کہ قسمت تھی یہی

ہم زمانے سے بھلا کیسے بغاوت کرتے
عشق ہی چھوڑ دیا اپنی بغاوت تھی یہی

جس کو بھی چاہا فقط خواب کی حد میں چاہا
آنکھ کھلتے ہی مکر جانا محبت تھی یہی

کھارے پانی کے سمندر میں جزیرہ تھا مرا
یعنی محفل میں بھی تنہائی مصیبت تھی یہی

جب یہ محسوس ہوا ہم سے وہ اکتانے لگا
ہم بھی چپ چاپ پلٹ آئے ضرورت تھی یہی

وہ تو مضراب تھا مطرب کی توجہ نہ ملی
مر گیا وہ بھی سبھی ساز بھی قدرت تھی یہی

یہ اور بات کہ تم سے نظر چرا لی ہے

یہ اور بات کہ تم سے نظر چرا لی ہے
مگر دھیان میں محفل تری سجالی ہے
میں اپنے خواب میں خوش ہوں مجھے سماج سے کیا
کہ میں نے خواب میں صحبت تری بسالی ہے

Thursday, December 8, 2011

اندھیرا بڑھ گیا جب سے دیا جلایا ہے

خدا کا شکر ہے دل کو یقین آیا ہے
وہ اب ہمارا نہیں ہے وہ اب پرایا ہے

جسے شریکِ سفر میرا کہہ رہے ہیں لوگ
وہ کوئی شخص نہیں ہے بس ایک سایہ ہے

جبین خاک پہ رکھ دی اجاڑلی دنیا
بتانِ شہر پہ جس نے بھی سر جھکایا ہے

تمہار ساتھ مجھے اور کر گیا تنہا
اندھیرا بڑھ گیا جب سے دیا جلایا ہے

اداسی آنکھ میں پھیلی خلا ہے سینے میں
لو ہم نے راہ وفا سے یہی کمایا ہے

ہے المیہ کہ ہمیں کوئی بھی سمجھ نہ سکا
سو جو بھی خواب تراشا وہی چھپایا ہے

یوں بے دلی سے لکھا تھا وفا کا آخری خط

یوں بے دلی سے لکھا تھا وفا کا آخری خط
کہ جیسے کڑوی دوا تھا وفا کا آخری خط

Sunday, December 4, 2011

پھر سے مجھے عطا ہو امامت حسین کی

جینا سکھا گئی ہے شہادت حسین کی
ہر دور میں رہے گی حکومت حسین کی

اپنے ہوں یا کہ غیر عقیدت سبھی کو ہے
ہر دل میں موجزن ہے محبت حسین کی

پھر سے مرے وطن پہ یزیدی کا راج ہے
پھر سے مجھے عطا ہو امامت حسین کی

جو ذات ساقیِ کوثر ہے دو جہاں کے لیے

جو ذات ساقیِ کوثر ہے دو جہاں کے لیے
اسی کی آل کا پانی یزید نے روکا

Saturday, December 3, 2011

جو ترے آس پاس رہتے ہیں

جو ترے آس پاس رہتے ہیں 
وہ بھلا کیوں اداس رہتے ہیں

Wednesday, November 30, 2011

میں اپنی شکل کی حسرت میں جھومتا ہی گیا

میں اپنی شکل کی حسرت میں جھومتا ہی گیا
جفا کے چاک پہ دن رات گھومتا ہی گیا
تجھے میں جیت گیا پر یہ جیت آخری تھی
پھر اس کے بعد میں ہر پل کو ہارتا ہی گیا
میں ضد پرست تھا کوشش سے باز نہ آیا
مگر نصیب مرا زور توڑتا ہی گیا
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر خموش چلتا رہا
اگرچہ شور ہوا کا پکارتا ہی گیا
میں عام شخص سہی پھر بھی خاص تھا دل کا
مگر یہ زعمِ وفا دل کو روندھتا ہی گیا
میں جب بھی قتل ہو دل کے فیصلوں سے ہوا
 مگر میں کیا کہوں دھڑکن سے ہارتا ہی گیا

کئی برس ہوئے ناکامیوں نے گھیرا ہے

کئی برس ہوئے ناکامیوں نے گھیرا ہے
ہماری جیت کی رسمیں بدل گیا کوئی

چلے تو ہم بھی تھے منزل کی آرزو لے کر

 چلے تو ہم بھی تھے منزل کی آرزو لے کر
یہ اور بات کہ سمتیں بدل گیا کوئی

Monday, November 28, 2011

"وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا"

بہت اداس سہی پھر بھی دل لگا بیٹھا


بہت اداس سہی پھر بھی دل لگا بیٹھا
میں دوستوں سے تھکا دشمنوں میں جا بیٹھا

اندھیری رات کا عالم ہے اور تنہائی
تمہارے خواب میں نیندیں کوئی گنوا بیٹھا

میں مسکراتا رہا غم چھپا کے سینے میں
وہ دل لگی میں بھی آنکھیں میری رلا بیٹھا

شریف شخص تھا الفت بھلا میں کیا کرتا
بس احتیاط میں ہی زندگی گنوا بیٹھا

نظر نظر میں ہی شکوے جو کر دیے میں نے
نظر نظر میں ہی قسمیں بھی وہ اٹھا بیٹھا

ہمارے خواب کی تعبیر کوئی کیا کرتا
کہ کوئی خواب میں جنت ہمیں دکھا بیٹھا

فریب ہم نے محبت میں اس قدر کھائے -
کہ اب فرہب بھی ہم سے نظر چرا بیٹھا

جسے قریب سے دیکھا اسی میں کھوٹ ملا
میں تلملاتا ہوا شوق ہی گنوا بیٹھا

کسے خبر کہ محبت میں ہے کمائی کیا
کہ جو بھی آیا سفر میں ہی جاں گنوا بیٹھا

میں جی رہا ہوں ک جینے کا قرض باقی ہے
وگرنہ شوق تو مدت سے دل جلا بیٹھا

یہ آدھی رات کا عالم یہ شاعری کی فضا
میں آج جینے کے سب درد ہی بھلا

Wednesday, November 23, 2011

عشق جھکتا ہے فقط ایک ہی در پر لوگو

عشق جھکتا ہے فقط ایک ہی در پر لوگو
اور پھر ساری خدائی کو جھکا دیتا ہے-

Tuesday, November 22, 2011

ہم کے تعبیر سے الجھے ہوئے جاں تک آئے

 ایک خواہش کے تعاقب میں کہاں تک آئے
پھول چنتے ہوئے ہم لوگ خزان تک آئے

خواب تعبیر کا جھگڑا تھا مگر دیکھیے تو
ہم کے تعبیر سے الجھے ہوئے جاں تک آئے

ساتھ دینے کو جو آیا تھا وہی بوجھ بنا
ہم تعلق کی پرستش میں گماں تک آئے

مجھے تم سے محبت ہے

مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کیا کروں جاناں
کہ میری اس محبت کے
سبھی صفحات کورے ہیں
جہاں تک دیکھتے جائو
فقط فرقت ہی فرقت ہے
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کیا فرق پڑتا ہے
سبھی باتیں مرے دل کی
مرے دل کے ہی اندر ہیں
کسی کو گر بتا دیں ہم
قیامت ہی قیامت ہے
مجھے تم سے محبت ہے
مگر اس شہرِ بے حس میں
محبت کا حوالہ کیا
عقیدوں اور رواجوں میں
دلِ ناداں کا جزبہ کیا
یہاں جینے کے ہر پل میں
مروت ہی مروت ہے
مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کیا کروں جاناں

ہماری زندگی میں ہیں فقط اب معجزے باقی

کہیں مذہب سہارا ہے کہیں قسمت پہ تکیہ ہے
ہماری زندگی میں ہیں فقط اب معجزے باقی

کہ جیسے کوئی لڑائی مری نصیب سے ہو

جہاں میں جو بھی ملا وہ خلافِ چاہ ملا
کہ جیسے کوئی لڑائی مری نصیب سے ہو
بناتا جاتا ہوں میں اور وہ ڈھاتا جاتا ہے
کہ جنگ جیسے لگاائی مری نصیب سے ہو

Wednesday, November 16, 2011

میں جس بھی راہ سے گزروں محبت سامنے آئے

میں جس بھی راہ سے گزروں محبت سامنے آئے
مرے حالات ایسے ہیں مجھے بچ کر نکلنا ہے

میں جس بھی راہ سے گزروں

میں جس بھی راہ سے گزروں
محبت سامنے آئے

Friday, November 11, 2011

اسے سماج کی شرطوں سے واسطہ کب تھا

سزا وفا کی ملے گی یہ طے ہوا کب تھا
شروع شروع میں محبت سے دکھ ملا کب تھا
میں خواب زار کا باسی، سراب میں ہی رہا
حقیقتوں سے تعارف کا حوصلہ کب تھا
نظر نظر میں ہی صدیوں کے فیصلے ہوں گے
نگاہِ یار کو اس بات کا پتہ کب تھا
وہ ایک شخص مری چاہتوں کا مارا ہوا
اسے سماج کی شرطوں سے واسطہ کب تھا

میں شب و روز غمِ جان کی تدبیر کروں

میں شب و روز غمِ جان کی تدبیر کروں
لیکن افسوس یہ سیلاب مرے بس کا نہیں

درد انسان کو گھٹی میں پڑا ملتا ہے

درد انسان کو گھٹی میں پڑا ملتا ہے
عمر پھر اس کے تدارک میں گزر جاتی ہے

مول جینے کا ادا کرتے ہوئے خرچ ہوئے

مول جینے کا ادا کرتے ہوئے خرچ ہوئے
زندگی ہم نے تجھے غور سے دیکھا ہی نہیں

سرسری سی نظر ملی اس سے

 آنکھیں آنکھوں سے  چار کر آیا
اور باقی ادھار کر ایا
سرسری سی نظر ملی اس سے
بے دھیانی/خیالی میں پیار کرآیا
مسکراہٹ دبا کے ہونٹوں میں
نیچی نظروں سے وار کر آیا
کل جسے آنکھ بھر کے دیکھا تھا
آج سولہ سنگھار کر آیا
حسن کو شوق تھا ستائش کا
عشق کیوں جاں نثار کر آیا
یہ محبت یہاں کی جنس نہ تھی
یونہی خوابوں کو خوار کرآیا
دھڑکنوں پر ہزار پہرے تھے
سر پھرا پھر بھی پیار کر آیا

Thursday, November 10, 2011

کون ٹھوکریں کھاتا

کون ٹھوکریں کھاتا
دل اگر نظر آتے

Wednesday, November 9, 2011

yeh uqda mujh pe bohat baad mein khula yaro

koi bhi mera naheen tha  wafa ki raho mein..
yeh uqda mujh pe bohat baad mein khula yaro
mein aap apnay khiyalat k hisaar mein tha..

Thursday, November 3, 2011

mujhay shayer hi ban'na tha

meray halaat aisay thay
mujhay shayer hi ban'na tha

Monday, October 31, 2011

بوجھ جینے کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں

بوجھ جینے کا  اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ہم کہ بگڑی کو بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
ہر طرف بت ہیں خدایا تری دنیا میں یہاں
عشق والے تو سناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے وہ کچھ خواب دکھا جاتا ہے
ہم پھر اس دل کو مناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
پہلے کرتے ہیں محبت کے ہزاروں دعوے
پھر تعلق کو نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
تیری دنیا سے بہت دور نکل آیا ہوں
اب ترے خواب بھی آتے ہوئے تھک جاتے ہیں

Thursday, October 27, 2011

مگر میں کیا کروں مجھ کو یہ جھوٹ بھی ہے پسند

میں جانتا ہوں کہ وعدے یہ جھوٹ ہیں سارے
مگر میں کیا کروں مجھ کو یہ جھوٹ بھی ہے پسند

Wednesday, October 26, 2011

تلاشِ رزق میں نکلے تھے زندگی کے لیے

تلاشِ رزق کو نکلے تھے زندگی کے لیے
اسی تلاش میں ہم زندگی گنوا آئے

Monday, October 24, 2011

لوگ ہر روز نئی ریت بنا دیتے ہیں

پہلے جس بات پہ کھلتی تھیں زبانیں سب کی
اب اسی بات پہ سب آنکھ جھکا لیتے ہیں
کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانے کا مزاج
لوگ ہر روز نئی ریت بنا دیتے ہیں

ہم نے ااک عمر زمانے سے لڑائی رکھی

ہم نے ااک عمر زمانے سے لڑائی رکھی
تھک گئے جب تو زمانے کا ہی حصہ ہوگئے

اس سے بہتر بھی تو جینے کے بہانے ہوں گے

اس سے بہتر بھی تو جینے کے بہانے ہوں گے
ہم کو فی الحال ترے خواب کی دنیا ہے بہت

سانسیں آتی ہیں ٹھہرتی ہیں چلی جاتی ہیں

سانسیں آتی ہیں ٹھہرتی ہیں چلی جاتی ہیں
خالی کمروں میں بھٹکتی ہوں ہوائیں جیسے

زندہ رہنے کی تگ و دو میں ہیں مصروف سبھی

زندہ رہنے کی تگ و دو میں ہیں مصروف سبھی
ورنہ دنیا سے کسی کو بھی کوئی کام نہیں

جو بنا چاہے ملا مجھ کو وہی اچھا تھا

جو بنا چاہے ملا مجھ کو وہی اچھا تھا
میری چاہت میں کوئی خاص برائی/خرابی ہےشاید

Friday, October 21, 2011

اب نئی زباں دے دے

پچھلے کچھ مہینوں سے
کچھ بھی لکھ نہیں پاتا
جب بھی لکھنے بیٹھوں میں
لفظ ہی نہیں ملتے
کشمکش عجب سی ہے
فکر تذبذب سی ہے
اتنی الجھی سوچوں کو
لفظوں میں بھروں کیسے
گول مول سے جذبوں کو
باتوں میں کہوں کیسے
خواب ہیں اچھوتے سے
لفظ ہیں کہ سادہ سے
صدیوں کے گھسے ہوئے
حالِ دل سنانے کو
اب نئی زباں دے دے!

Thursday, October 20, 2011

مٹھی بھر لفظ ہیں دنیا کی زبانوں میں یہاں

مٹھی بھر لفظ ہیں دنیا کی زبانوں میں یہاں
اپنے جذبات ترے سامنے لائوں کیسے

Monday, October 17, 2011

یوں ہی ناحق ہمیں بدنام نہ کرنا یارو

یوں ہی ناحق ہمیں بدنام نہ کرنا یارو
عشق سے بھی نہیں حالات بدلنے والے

اک مسلسل خیال کی صورت

اک مسلسل خیال کی صورت
وہ مرے ساتھ ساتھ رہتا ہے

سہما سہما ڈرا ڈرا ہے دل

سہما سہما ڈرا ڈرا ہے دل
دنیا والوں سے تھک چکا ہے دل
ضبط کرنے کی مشق کرتا رہا
ضبط میں ہی تھا جب مرا ہے دل
قید ہے جبر ہے تسلط ہے
سانس لیتے بھی ڈر رہا ہے دل
عشق کے نام پر بھی رسمیں ہیں
کیسے لوگوں میں آ گیا ہے دل
سارے خوابوں کو دفن کر کے بھی
روز تعبیر ڈھونڈتا ہے دل

Sunday, October 16, 2011

دو چار دن کی ہی قربت میں ٹوٹ جائے سحر

دو چار دن کے تعلّق  میں ٹوٹ جائے سحر
قلعی کیا ہوا برتن ہرایک شخص یہاں

Saturday, October 15, 2011

محبتیں بھی یہاں کی، یہاں کی رسموں سی

محبتیں بھی یہاں کی، یہاں کی رسموں سی
جنہیں نبھاتے ہوئے دل کی موت ہو جائے

بس ایک تیرے نہ ملنے سے کچھ کمی سی ہے

بس ایک تیرے نہ ملنے سے کچھ کمی سی ہے
وگرنہ شکر خدا کا کہ انتخاب ہوں میں

Wednesday, October 12, 2011

مری جبین پہ تختی ہے میرے نام کی بس

مری جبین پہ تختی ہے میرے نام کی بس
وگرنہ عمر کا ہر پل ہے روزگار کے نام


-------------------------------------------
میں چاہتا ہوں اسے پر یہی تو کافی نہیں

Tuesday, October 11, 2011

درد تو لازمی حصّہ ہے محبت کا ریحان

داغ ماتھے کا تو میلوں سے جلا دیتا ہیں
دیکھنے والا کئی باتیں بنا دیتا ہیں

سچ کو اتنا بھی نہ معیار بنائو یارو
سچ تلکلف کے سبھی رشتے مٹا دیتا ہے

خول چہرے پہ چڑھایا ہے یہاں لوگوں نے
رنگ بہ جائے تو ہر روپ ڈرا دیتا ہے

آئینہ دیکھ کے شرمندگی ہو گی کیوں کر
آئینہ میرا مرے عیب چھپا دیتا ہے

درد تو لازمی حصّہ ہے محبت کا ریحان
پیار انسان کو مجرم بھی بنا دیتا ہے

Monday, October 10, 2011

میں جسے راہ میں چھوڑ آیا تھا رستوں کی طرح

میں جسے راہ میں چھوڑ آیا تھا رستوں کی طرح
اب وہی شخص مری خاک اڑاتا آئے

ہمارا سچ ہی ہمارے خلوص کا دشمن

سزا ملی گی محبت میں راست گوئی کی
ہمارا سچ ہی ہمارے خلوص کا دشمن

مرے مزاج کی دنیا نہ میرے جیسے لوگ

مرے مزاج کی دنیا نہ میرے جیسے لوگ
بھلا میں کیسے زمانے کے ساتھ چلا پاتا

غزل جیت سنگھ

پیار کے راگ الاپنے والا
بکھرے ہوئوں کو سنبھالنے والا
درد کو لفظوں  میں بند کر کے
آسماں کی طرف اچھالنے والا
جاگتی آنکھوں، روتے دلوں کو لوریوں میں سلانے والا
زندگی بھر بے وفائی کے خلاف
نوائے احتجاج اتٹھا نے والا
آج ایسے پڑا ہے جیسے
ستر سالوں کی تھکن اتار راہا ہو
ابھی کچھ پل میں ارتھی اٹھ جائے گی اس کی
جگجیت نام تھا اس کا
جگجیت سینگھ
غزل جیت سنگھ

Saturday, October 8, 2011

کچھ تو سوچا ہے زندگی نے ضرور

کچھ تو سوچا ہے زندگی نے ضرور(zindagi ne kush tou shocha ho ga)
اس قدر رائگاں نہ گزرے گی

آئینہ کچھ بتا نہیں پاتا

شکل میری مجھے دکھائے کوئی
آئینہ کچھ بتا نہیں پاتا

جو بھٹکے ہیں تو وحشت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

کریں کس سے شکایت کیا ، یہ رونا عمر بھر کا ہے
جو سچ پوچھو محبت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

ہمیں ادراک گر ہوتا سرابوں میں بھٹکتے کیوں
جو بھٹکے ہیں تو وحشت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

فقط اک پل کی لغزش نے زمیں پر ہم کو دے مارا
کریں اب یاد جنّت کیا، یہ رونا عمر بھر کا ہے

نظر کی ایک چنگاڑی مرے خرمن کو لے ڈوبی
ہوئے جب راکھ حسرت کیا،  یہ رونا عمر بھر کا ہے

مرے چہرے پہ رونق تھی تری قربت کا صدقہ تھا
تری فرقت کی دولت کیا ، یہ رونا عمر بھر کا ہے

ہر اک لمحہ کمی تیری بسر ہو زندگی کیسے
کریں تشریحِ فرقت کیا یہ رونا عمر بھر کا ہے

Thursday, October 6, 2011

بھر کے جام خود بخود ہی چھلک جائے گا

بھر کے وہ خود بخود ہی چھلک جائے گا
پینے والے کی قسمت اگر آ ملے

زندگی تیرے قدموں میں گر جائے گی
آگے تیری محبت جھکے نہ جھکے

لمحہ لمحہ تری ضرورت ہے

زدگی کس طرح بسر ہوگی
لمحہ لمحہ تری ضرورت ہے

Wednesday, October 5, 2011

زندگی تیری شرائط پہ ابھی سوچتا ہوں

وقت رکتا نہیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
پھول کیسا بھی ہو اک روز بکھر جاتاہے

لالی چہرے کی تروتازہ گلابوں جیسی
عمر کی دھوپ میں ہر رنگ اتر جاتا ہے

چودھویں رات میں ہر طرف تجلّی جس کی
کون جانے کہ اماوس میں کدھر جاتاہے

زندگی تیری شرائط پہ ابھی سوچتا ہوں
دل دھڑکتے ہوئے کچھ دیر ٹھہر جاتا ہے

مجھ کو منظور نہیں تجھ سے بچھڑکر جینا
پھر بھی ہر روز مرا دن کیوں گزر جاتا ہے

اس جہاں پر کبھی دل سے نہ بھروسا کیجے
وقت آنے پہ مقدّر بھی مکر جاتا ہے

ایک دنیا تمہارے ساتھ سہی

ایک دنیا تمہارے ساتھ سہی
ایک دنیا ہے میری اپنی بھی
تم نے جھٹکا تو کوئی بات نہیں
اپنی دنیا میں لوٹ آئوں گا

باپ بن کر پتہ چلے گا تجھے

باپ بن کر پتہ چلے گا تجھے
باپ کتنا شفیق ہوتا ہے

زیادہ اونچے خوابوں والے

زیادہ اونچے خوابوں والے
جلدی ہی تھک جاتے ہیں
قسطوں قسطوں جینے والے
اک جھٹکے سے مر جاتے ہیں
ہم سے ناداں، عشق کے سائل
رستوں میں ہی کھپ جاتے ہیں
عشق محبت خواب کی باتیں
خواب دغا کر جاتے ہیں

Saturday, October 1, 2011

میں نے سو بار کہا یوں نہیں جینا میں نے

میں نے سو بار کہا ایسے نہیں جینا ہے
وقت پھر بھی مرے دن رات لیے جاتاہے!

Friday, September 30, 2011

خزاں بہاروں پہ آ کے ٹھہری، یہ امتحاں تھا محبتوں کا

بچھڑ چکے ہیں تمام راہی، فقط ہے رستے کی گرد باقی
نہ دل رہا نہ ہی دل کا مہماں، مگر ہے سینے میں درد باقی

خزاں بہاروں پہ آ کے ٹھہری، یہ امتحاں تھا محبتوں کا
پرندے شاخوں سے اڑ گئے سب مگر رہا نخلِ زرد باقی

مرے تصور سے تیری یادیں بھی باری باری ہوئی ہیں رخصت
نہ آس کوئی نہ پاس کوئی،  بس ایک ہے آہِ سرد باقی

ہمارے دل کی تمام الجھن تمہاری چاہت کے واسطے تھی
تمہی نے دامن چھڑا لیا جب، نہ دل بچا نہ ہی درد باقی

Thursday, September 29, 2011

وہ غمگسار یقینا کسی عذاب میں ہے

کئی دنوں سے ہے خاموش کچھ خبر ہی نہیں
وہ غمگسار یقینا کسی عذاب میں ہے

Wednesday, September 28, 2011

تمہارا چہرہ کسی اجنبی نے پہنا ہے

جسے فلک نے سنوارا وہ شخص اور ہی تھا
جو چاند سے بھی تھا پیارا  وہ شخص اور ہی تھا

تمہاری راہ سے گزرے بہت سے لوگ مگر
جو ہمسفر تھا تمہارا  وہ شخص اور ہی تھا

محبّتوں کے مراسم سبھی کے ساتھ سہی
جو جان میں تھا اتارا  وہ شخص اور ہی تھا

گزار لیتے تھے ہم وقت سب کے ساتھ مگر
نہ جس کے بن تھا گزارا  وہ شخص اور ہی تھا

میں بول بول کے تھک جائوں کوئی سمجھے نہ!
جو جان لیتا اشارہ  وہ شخص اور ہی تھا

تمہارا چہرہ کسی اجنبی نے پہنا ہے
جو دل جگر تھا ہمارا  وہ شخص اور ہی تھا

وہ پاگلوں سا مرے ارد گرد پھرتا تھا

گئے وہ دن کہ مری اک نگاہ کے بدلے
وہ پاگلوں سا مرے ارد گرد پھرتا تھا

وگرنہ جیتا ہے ہر کوئی زندگی اپنی

ہمیں گماں ہے کہ  ہم ایک ساتھ رہتے ہیں
وگرنہ جیتا ہے ہر کوئی زندگی اپنی

قسم خدا کی محبت کے سلسے ہیں عجیب

قسم خدا کی محبت کے سلسے ہیں عجیب
جو جان سے ہو قریب اس کو اجنبی کہنا!

Tuesday, September 27, 2011

تلاشِ رزق نے سب فیصلے بدل ڈالے

کچھ اور سوچ کے آیا تھا اس جہاں میں مگر
تلاشِ رزق نے سب فیصلے بدل ڈالے

ندی کا پانی ہوں گدلا مجھے نہ کیجے گا

ندی کا پانی ہوں گدلا مجھے نہ کیجے گا
کہ میری راہ میں تم جیسے اور بھی ہیں ابھی

دو چار سال جو ہوتے تو مان جاتے ہم

 وہ آنکھ ہو گی پرائی ، سہی نہ جائے گی
اسیرِ دل کی رہائی سہی نہ جائے گی
دو چار سال جو ہوتے تو مان جاتے ہم
یہ عمر بھر کی جدائی سہی نہ جائے گی

Saturday, September 24, 2011

جو خواب آنکھ نے دیکھا وہ اس زمیں کا نہ تھا


جنوں تھا عشق تھا تجھ سے بڑی محبت تھی
جو شاعری میں لکھی جائے ایسی چاہت تھی
تجھے گنوا دیا حالات کا ستم کہیے
کہ اپنے بیچ میں بس دو قدم مسافت تھی
جو خواب آنکھ نے دیکھا وہ اس زمیں کا نہ تھا
کہ ایسے خواب کی تعبیر تھی تو جنت تھی!
تو کائنات کی وسعت میں رہ گیا تنہا
کہ تیری جیب میں دولت نہ تھی محبت تھی
کسی کے ساتھ میں چلتا تو کس طرح چلتا
کہ پیار کرنا بھی دل سے نہ تھا ضرورت تھی
جسے کرید کے دیکھا وہی ادھورا تھا
اسی لیے مجھے تنہائیوں کی عادت تھی
میں اس جہاں کا نہیں تھا اسی لیے شاید
مری حیات مسلسل مجھے اذیّت تھی

Thursday, September 22, 2011

مگر یہ کیا ہوا ہم کو

تمہیں ہی سوچتے رہنا
بہت بے کار سے پھرنا
بڑے ہی سست سے ہو کر
خیالوں میں تجھے لا کر
کھٹولے پر پڑے رہنا
یہ عادت تو کبھی نہ تھی
کہ ہم تو زندگانی کے سمندر سے
دوانہ وار لڑتے تھے
بہائو کے مخالف بھی
بڑے گردے سے چلتے تھے
مگر یہ کیا ہوا ہم کو
کہ جب سے تم سے بچھڑے ہیں
یہ بازو ڈھیلے چھوڑے ہیں
سمندر سے یہ کہتے ہیں
ہمیں پاتال تک لے چل
کہ ہم نے موت سے پہلے زمیں کی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونا ہے
دل وحشی کا مفروضہ !
کہ ہم کو ڈوبتا دیکھے تو شاید لوٹ آئے وہ!
دلِ وحشی تو پہلے بھی
بہکتا تھا بھٹکتا تھا
مگر یہ کیا ہوا ہم کو

ہر اک لمحہ خیال آئے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا

ہر اک لمحہ خیال آئے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا
یہ حسرت ہی رہی ہائےکہ تو ہوتا تو یوں ہوتا
زمانہ جب کبھی ہم سے نہایت بے رخی کر دے
تو دل رہ رہ کے جتلائے کہ تو ہوتا تو یوں ہوتا

Sunday, September 18, 2011

یہ عمر لمحوں میں کٹتی بڑی طویل لگے

تری کمی کا ہے احساس مجھ کو پر لمحہ 
یہ عمر لمحوں میں کٹتی بڑی طویل لگے

Saturday, September 17, 2011

سب غرض کے بندے ہیں

دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں
یہ عشق محبت تو
رسمیں ہیں دوانوں کی
باتیں ہیں فسانوں کی
تم پیار کے سودائی
کس بھول میں پھرتے ہو
اس مطلبی دنیا میں
ہو شخص ہی تنہا ہے
ہر شخص ہے ہرجائی
سب وعدے محبت کے
اور قسمیں نبھانے کی
لفظوں کے پلندے ہیں
اور لفظ منافق ہیں
ہرشخص نے جسم اپنا
کندھے پہ اٹھایا ہے
اس جسم کو ہر لمحہ
سانسوں کی ضرورت ہے
کھانا ہے کبھی پینا
اٹھ کرہے کبھی چلنا
محتاج جو اتنا ہو
اس شخص پہ تکیہ کیا
اس خاک کے پتلے پر
کرتے ہو بھروسہ کیا
اس وقت نظرآتے
دو چار جو ساتھی ہیں
حاجات کے مارے ہیں
موسم کے پرندے ہیں
اڑجائیں گے سب اک دن
دنیا کی حقیقت کیا
سب غرض کے بندے ہیں

Wednesday, September 14, 2011

اس کی چاہت مجھے شہزاد بنانے پہ مصر ہے

دل جنوں خیزترے خواب سجانے پہ مصر ہے
اور تقدیر اسے نیچا دکھانے پہ مصر ہے
ایک بے کار سا انسان ہوں گلیوں میں پھروں
اس کی چاہت مجھے شہزادہ بنانے پہ مصر ہے
شاعری پیار کی بھیجے وہ مجھے رات گئے
درحقیقت وہ مرے خواب میں آنے پہ مصر ہے
میں فقط چاند ہوں ندیا کا مجھے چھو کے نہ دیکھ
کیوں مرے عکس کو پانی میں نچانے پہ مصر ہے
اب محبت نہیں ہوتی، میں نے کوشش تو بڑی کی
دل پرانے کسی رشتے کو نبھانے پہ مصر ہے
ہر کوئی پیاز کی صورت ہے کئی پرتوں میں
ہر کوئی اپنی حقیقت کو چھپانے پہ مصر ہے

Monday, September 12, 2011

جنم کا دن مبارک ہو

سبھی جب بھول جاتے ہیں
تو اس کو یاد رہتا ہے
وہ اک موہوم سا رشتہ بہت پرواہ کرتا ہے
برس کے تین سو پینسٹھ دنوں کے بعد بھی دیکھو
گھڑی بارہ بجاتی ہے
تواک سیکنڈ سے پہلے ہی
اسی کی کال آتی ہے
جنم کا دن مبارک ہو""
اسےمجھ سے محبت ہے
مگر شاید!؟

جسے تم پیار کہتے ہو

جسے تم پیار کہتے ہو وہ افسانہ ہے منٹو کا
کہاں پر ختم ہو جائے کوئی بتلا نہیں سکتا

Sunday, September 11, 2011

سانس چلتی ہے چلتے جاتے ہیں

سانس چلتی ہے چلتے جاتے ہیں
وقت کے ساتھ بہتے جاتے ہیں
کوئی سمجھا کبھی نہ سمجھے گا
دل سے مجبور کہتے جاتے ہیں
جھوٹ بولا دغا دیا اس نے
بس یہی بات لکھتے کاتے ہیں
وقت مرہم سہی مگر دیکھو
زخم ہر روز بڑھتے جاتے ہیں
دل دکھا اس قدر محبت میں
اشک بہتے ہیں بہتے جاتے ہیں
نبض چلتی ہے دل دھڑکتا ہے
شور ہوتا ہے سنتے جاتے ہیں
وہ جو بت کو خدا سمجھتے تھے
سر زمیں پر پٹختے جاتے ہیں
ہے ڈراتا ہمیں اکیلا پن
اپنے اندر ہی گھٹتے جاتے ہیں
زندگی سلطنت مقدر کی
ہم مقدر سے لڑتے جاتے ہیں
عشق مرتا نہیں مگر ریحان
عشق میں لوگ مرتے جاتے ہیں

جب تلک یہ سانسیں تھیں

جب تلک یہ سانسیں تھیں
چیختے رہے ہم تم
کیا ہوا مقدر کا
کیا ملا شکایت سے
قسمتوں کی تختی کو
زندگی کی سختی کو
جھیلنا ہی پڑنا تھا
جھیلتے رہے ہم تم
وقت کے سمندر میں
عمر کی حقیقت کیا
اس جہانِ بے حد میں
آدمی کی وقعت کیا
آسماں کی رفعت تک
ہم سے ناتوانوں کا
شور کب پہنچنا تھآ
لیکن اس حقیقت کا
کیا کریں کہ خاکی ہیں
دل میں درد رہتا ہے
درد کی روایت کو
پیٹتے رہے ہم تم
جب تلک یہ سانسیں تھیں
چیختے رہے ہم تم

Friday, September 9, 2011

غمزدہ اور اجنبی آنکھیں

غمزدہ اور اجنبی آنکھیں
مجھ کو لگتی نہیں تری آنکھیں
پہروں باتیں کریں خیالوں میں
سامنے کچھ نہ بولتی آنکھیں

یہ زندگی

یہ زندگی
جس کے بھی حوالے کی
وہی کھیلنے لگا اس کے ساتھ
سو آخر مایوس ہو کر
بہت مجبور ہو کر
محدود کر لیا خود کو
بس اپنے آپ تک!

Thursday, September 8, 2011

کس قدر اجنبی لگتی ہیں وہ آنکھیں اب ریحاں

وہ جو اپنا تھا وہی غیر سا لگتا کیوں ہے
اس کی آنکھوں میں کسی اور کا چہرہ کیوں ہے
مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تری انجان نظر
بخدا جان کے انجان سا بنتا کیوں ہے
دوغلے نینوں میں کچھ خواب ہمارے بھی تو تھے
غیر کا ہو کے تو ماضی سے مکرتا کیوں ہے
اس محبت نے کسی در کا نہ چھوڑا ہم کو
ریگِ تنہائی ہی مجنوں کا نصیبہ کیوں ہے
کس قدر اجنبی لگتی ہیں وہ آنکھیں اب ریحاں
پیار گر روح ہے تو پھر ایسے بدلتا کیوں ہے

ایک مدت سے میں نے سانسوں کو روکا ہوا ہے

تری امّید مجھے بوڑھا نہ ہونے دے گی
ایک مدت سے میں نے سانسوں کو روکا ہوا ہے

Wednesday, September 7, 2011

وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا

وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا
دیکھنے کو نظر کے پاس رہے
رات بھر چھت پہ میرے ساتھ رہے
لیکن اس کو پکڑتا نا ممکن
---------------------
پہروں باتیں کرے خیالوں میں
آتا جاتا رہے وہ خوابوں میں
وہ مرا ہے کہ جیسے خواب مرا
----------------------
بند مٹھی میں بند کچھ بھی نہیں
گال پھولے ہوا بھری ان میں
ہر شرارت میں اک خیانت ہے
زندہ رہنا کوئی سہل تو نہیں
اس کی یادوں میں کچھ سکون سا ہے
ورنہ جینے میں جی لگے نہ مرا
وہ مرا ہے کہ جیسے چاند مرا

وہ سب کچھ ہے مگر میرا نہیں ہے

جہاں کی ساری اچھی باتیں اس میں
وہ سب کچھ ہے بس اک میرا نہیں ہے

Tuesday, September 6, 2011

کیسے ہوتے ہیں وہ محبوب جو مل جاتے ہیں

تو نظرآئے تو اکثر یہ خیال آتا ہے
کیسے ہوتے ہیں وہ محبوب جو مل جاتے ہیں

Monday, September 5, 2011

بھیک سانسوں کی طلب کرتے گداگر ہم ہیں

ایک انجان مسافت کے مسافر ہم ہیں
بھیک سانسوں کی طلب کرتے گداگر ہم ہیں

اب زمانے کے حوالے ہیں توغم ہیں ہم ہیں

شوقِ تحریر مگر ہاتھ قلم ہیں ہم ہیں
راستہ گم ہے مگر تیز قدم ہیں ہم ہیں
عقل کے دیس میں دیوانے کدھر جائیں بھللا
دل جنوں خیز پہ تعزیروستم ہیں ہم ہیں
ہاتھ میں تلخیِ دنیا کا ہے زہرِ قاتل
آنکھ میں خواب کے مضمون رقم ہیں ہم ہیں
انتہا یہ کہ مچل لیتے ہیں دل ہی دل میں
ورنہ دن رات جدائی کے الم ہیں ہم ہیں
تیرے نینوں میں بسا کرتے تھے اچھے دن تھے
اب زمانے کے حوالے ہیں توغم ہیں ہم ہیں

Monday, August 29, 2011

زندہ رہنے میں اب سہولت ہے

آپ کی انکھ میں محبت ہے
مرے فن کی یہی حقیقت ہے
شور کرتا پھروں میں گلیوں میں
کون سمجھے کہ کیا شکایت ہے
زندگی بھر جو ہم سنا نہ سکے
چار لفظوں کی اک حکایت ہے
بات اتنی ہے اور کچھ بھی نہیں
ہم کو تم سے بہت محبت ہے
تیری یادوں نے ہاتھ تھام لیا
زندہ رہنے میں اب سہولت ہے
روح کے اپنے کچھ تقاضے ہیں
جسم کی اپنی اک روایت ہے
زندگی خودبخود چلی جائے
جیسے دریا میں پات تیرت ہے
ہم ہیں انسان کیا غرور کریں
لمحہ لمحہ ہمیں ضرورت ہے
ایک شکوہ ہے مجھ کو لوگوں سے
بہت خود غرض ان کی عادت ہے

Wednesday, August 24, 2011

خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح

زبدگی تیری مسافت کا بھروسہ ہی نہیں
کوئی منزل کوئی چوکھٹ کوئی رستہ ہیں نہیں
خواب آتے ہیں کسی اجنبی رہرو کی طرح
ہم بھی عاشق تھے کبھی اب تو یہ لگتا ہیں نہیں
ایک بس شور ہے لفظوں کا وفا بھی اپنی
سچ تو یہ ہے تجھے دل  سے کبھی چاہا ہی نہیں
ہم کو عادت ہے محبّت میں پڑے رہنے کی
ہجر کے درد کے بن اپنا گزارا ہی نہیں
تیری فرقت ہی مداوا ہے دلِ وحشی کا
وصل کی قید تو ظالم کو گوارا ہی نہیں
بے نیازی ہے خماری ہے کہ مایوسی ہے
اب کسی شے کا طبیعت کو تقاضا ہی نہیں
کوئی تمہید تعارف نہ خلاصہ اس کا
عمر کا کھیل کسی شخص نے سمجھا ہی نہیں

Monday, August 22, 2011

ایک مدّت سے مجھے وہم ہے زندہ ہوں میں

اک جھلک دیکھ لوں تم کو تو یقیں آجائے
ایک مدّت سے مجھے وہم ہے زندہ ہوں میں

Saturday, August 20, 2011

اکثر یہی سوچا ہم نے

تیری یاد آئی تو اکثر یہی سوچا ہم نے
کیسے ہوتے ہوں گے وہ لوگ جو مل جاتے ہیں

Friday, August 19, 2011

چاند کہا تھا تمہیں

چاند کہا تھا تمہیں
سو چاند ہی ہو گئے
ہماری پہنچ سے دور
آسمانوں میں
ستاروں کے بیچ
سر اٹھا کے دیکھوں
تو پگڑی گر جائے

Wednesday, August 17, 2011

حسن والے تیری نازش پہ ہنسی آتی ہے

زندگی تیری نوازش پہ ہنسی آتی ہے
رونے والوں کو جوں بارش  پہ ہنسی آتی ہے
ہیں کہاں اپنے نصیب ایسے کہ مل پائیں ہم
آنکھ کو خواب کی سازش  پہ ہنسی آتی ہے
اس زمانے میں محبت کا تقاضا ہے اسے
دل کی معصوم سی خواہش  پہ ہنسی آتی ہے
اک نظر میں ہی تری عمر کا سودا ہو گا
حسن والے تیری نازش  پہ ہنسی آتی ہے
کاسہ جب ٹوٹ گیا ہے تو جواب آیا ہے
یار کی چشمِ نوازش  پہ ہنسی آتی ہے

Thursday, August 11, 2011

کیوں پھر سے۔۔۔۔۔

ہماری آنکھوں میں مر چکے ہیں
تمہاری چاہت کے خواب سارے
سلگ سلگ کے ہی بجھ گئے ہیں
عقیدتوں کے چراغ سارے
بکھر چکے ہیں گلاب سارے
فقط ہے یادوں کی راکھ باقی
محبتوں کا زوال باقی
لٹی پڑی ہے قبا غزل کی
بجھی ہوئی ہے چتا بھی دل کی
کیوں پھر سے الفت بڑھا رہے ہو
مرے ہو ئو ں کو  جگا رہے ہو

ہم نے سو بار تری طرف اچھالا دل کو

کبھی اوقات سے زیادہ نہیں ملتا دل کو
بس اسی بات کا دیتے ہیں دلاسہ دل کو
نامکمل سا کوئی خواب اسے چاہیے تھا
تو جو بچھڑا تو ترے خواب نے پالا دل کو
موت آتی ہے تو وہ آ کے جگا دیتا ہے
اس محبت نے مصیبت میں ہے ڈالا دل کو
تو نے بھولے سے جو اک بار ہمیں دیکھ لیا
ہم نے سو بار تری طرف اچھالا دل کو
ہائے وہ مل جاتا تو کس طور سے جیتے ریحان
اس تجسس نے تو بے چین ہی رکھا دل کو

ترے دیار کے لوگوں کو راس کچھ بھی نہیں

طلب ہے سات سمندر کی پیاس کچھ بھی نہیں
ترے دیار کے لوگوں کو راس کچھ بھی نہیں
سنبھالے پھرتے تھے اک خواب کتنے برسوں سے
جو آج آنکھوں میں جھا نکا تو پاس کچھ بھی نہیں
دبی دبی سی تمنا بھلا جیے کب تک
گھٹن میں قید میں جینے کی آس کچھ بھی نہیں
تمہیں  بھی سیکھنا ہو گا یہ زندگی کا اصول
جو مل گیا ہے وہی ہے ، قیاس کچھ بھی نہیں
اسے گنوا کے بھی جیتے ہیں کیا عجب ہے ریحان
جسے یہ کہتے تھے تم بن حواس کچھ بھی نہیں
 

Friday, July 29, 2011

سفید پوش محبت پہ زعم کیا کرنا

وہ ہم خیال تھا میرا مگر  دو چار قدم
سفر کمال تھا میرا مگر  دو چار قدم
مجھے نصیب پہ اپنے یقیں نہ آتا تھا
عجیب حال تھا میرا مگر  دو چار قدم
اندھیری رات میں روشن چراغ کی صورت
وہ مہ جمال تھا میرا مگر  دو چار قدم
وہ سانس سانس میں مجھ کو حیات دینے لگا
سو جی بحال تھا میرا مگر دو چار قدم
ہے تشنگی کہ محبت بھرا وہ افسانہ
زبان حال تھا میرا مگر  دو چار قدم
مری بقا کی حقیقت کی تلخیوں میں وہ
حسیں خیال تھا میرا مگر دو چار قدم
سفید پوش محبت پہ زعم کیا کرنا
وہ کوئی فال تھا میرا مگر  دو چار قدم

Thursday, July 28, 2011

زندگی یہ تھوڑی سی پیار سے گزاریں تو لمحوں میں گز جائے

(گھر کے بزرگوں کی شان میں معذرت کے ساتھ جو ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں)  


آپ کے ارادوں کو
جان لیں اگر ہم تو
آپ کی قسم ہم کو
آپ کے بنا بولے
اآپ کی امنگوں سا
آپ کے ارادوں سا
اپنا آپ کردیں ہم
لیکن اس حقیقت کا
کیا کریں کہ بے بس ہیں
دل کی کیفیت جب تک
ہونٹوں سے ادا نہ ہو
ہم سے بد نصیبوں کو
خاک کے مکینوں کو
کچھ سمجھ نہیں آتی
اس لیے گزارش ہہے
ہم سے بھولپن میں گر
کچھ خطا جو سرزد ہو
پیار سے محبت سے
اور نرم لہجے سے
ٹوک دو تو اچھا ہے
روک دو تو اچھا ہے
کیا برا ہے گر سارے
خشمگیں طبیعت کو
چیخنے کی عادت کو
پیار سے بدل ڈالیں
زندگی یہ تھوڑی سی
پیار سے گزاریں تو
لمحوں میں گز جائے

کیا کہیں گے جگ والے

زندگی ترے شکوے
ہم سے اب نہیں ہوتے
کیا کہیں گے جگ والے
شاعروں کو عادت ہے
بے وجہ شکایت کی

Monday, July 25, 2011

آج تم مقدر ہو

ہم بھی کتنے سادہ ہیں
رنجشیں محبت کی
یار کے ستم سارے
قسمتوں پہ دھرتے ہیں
پہلے وہ مقدر تھا
آج تم مقدر ہو
 

سانس ہو محبت ہو

 چاہنے کی عادت ہے
چاہتوں میں گزری ہے
سانس ہو محبت ہو
آتے جاتے رہتے ہیں

آپ سے محبت کی بس یہی حقیقت ہے

دل کی سرزمیں کو اب
ہارنے کی عادت ہے
حسن کے سواروں نے
اپنی پوری طاقت سے
اس کے ذرے ذرے کو
بار بار روندھا ہے
اس شکست و ریخت نے
عشق کی محبت کی
ہر انا گرا دی ہے
اب تو ایسی حالت ہے
اک ذرا سی آہٹ پر
سب قلعوں کے دروازے
اپنے آپ کھلتے ہیں
اب مزاحمت میں بھی
التفات شامل ہے
آپ سے محبت کی
 بس یہی حقیقت ہے

Monday, July 11, 2011

جو ممکنات میں تھا

جو ممکنات میں تھا سب ہی کر کے دیکھ لیا
بس ایک نقص مقدر میں رہ گیا لوگو

لا محالہ دیا

میری تقدیر نے
مجھ کو جو بھی دیا
لا محالہ دیا
مجھ سے پوچھا نہیں

میری تقدیر نے میرے تابوت میں

میری تقدیر نے میرے تابوت میں
آخری کیل بھی جڑ دیا دیکھ لو
جسم کے ڈھیر  سے
زندگی کی رمق
ڈھونڈنا چھوڑ دو
اب تو امید کا آسرا توڑ دو
اس محبت نے دھوکا دیا دیکھ لو

Friday, June 24, 2011

خواب کے مکینوں کا

خواب کے مکینوں کا
ہم سے بے زمینوں کا
نظریہ عقیدہ کا
اپنی کیا دلیلیں ہیں
ریت کی فصیلیں ہیں
ہم تو زرد پتوں سے
خواہشوں کے جھونکوں پر
رقص کرتے رہتے ہیں
جس طرف بھی لے جائے
موج جذبہ دل کی
بے لگام چلتے ہیں
عقل بھیگی بلی سی
بعد میں بلاوجہ
اپنا بھرم رکھنے کو
بحث کرتی رہتی ہے

غرور ٹوٹا ہے عاشقی کا غمِ زمانہ کا اثر دیکھو

غرور ٹوٹا ہے عاشقی کا غمِ زمانہ کا اثر دیکھو
جو سورما تھے وہ زیرِ پا ہیں گزرتے سالوں کا جبر  دیکھو

پوچھے کوئی تو کیا کہیں کیسی تھی زندگی

 پوچھے کوئی تو کیا کہیں کیسی تھی زندگی
دن رات اک مدار میں چلتی تھی زندگی

یہ کیا کہ صرف پیٹ کو بھرتے گزر گئی
ہم نے تو کوئی اور ہی سوچی تھی زندگی

اک حسنِ یار تھا کہ جچا چند روز تک
ورنہ تو بے سواد تھی پھیکی تھی زندگی

تقدیر پہ وفا پہ محبت پہ عشق پہ
تھا جن کو ناز ان کی ہی  بگڑی تھی زندگی

خوابوں کی سرزمیں پہ بھٹکتی رہی حیات
سایوں کا ہاتھ تھام کے چلتی تھی زندگی

Friday, May 6, 2011

ہم تو بہشت سے ہو کے واپس بھی آگئے

باد صبا میں اور گلابوں میں آج تک
ملتا ہے تیرا نام کتابوں میں آج تک

اک خوشنما سا ذکر ہے اک دلربا سی یاد
لیکن رہا یہ عشق حجابوں میں آج تک

فکرِ معاش کے تلے عمرِ حسیں کٹی
ملتا ہے رزق تول کے خوابوں میں آج تک

ہم تو بہشت سے ہو کے واپس بھی آگئے
تو ہے ریاضتوں کے سرابوں میں آج تک

حالات اور وقت نے روکا مگر وہ شخص
رہتا ہے میری آنکھ کے خوابوں میں آج تک

تیرا ذکر ہے

تیرا ذکر ہے
تجھ سے ہی نہ ہو
یہ کہاں ممکن !
وقت نے جب کبھی دی مہلت
کہہ دوں گا ترے کان میں آکر
مجھے تجھ سے محبت ہے

Sunday, April 24, 2011

یوسف ترا گلیوں میں

اے مصر کے ہرکارو
کہ دویہ زلیخا سے
 کہ خواب کے محلوں سے
باہر کبھی آئے نا!
اس بھوک کی دنیا میں
اس درد کے صحرا میں
کس نرخ پہ بکتا ہے
کس خاک میں تلتا ہے
یوسف ترا گلیوں میں
آکر کبھی دیکھے نا!

وہ فقط سوچ ہے سوچا نہ کرو

وہ فقط سوچ ہے سوچا نہ کرو
ریت کے نقش پہ مچلا نہ کرہ

کانچ کا چاند ہے گر جائے گا
آنکھ بھر کر اسے دیکھا نہ کرو

وقت لوٹا ہے نہ لوٹے گا کبھی
آپ یوں ماضی کو پیٹا نہ کرو

اپنے ہاتھوں سے تراشا ہو جسے
ایسے بت کا کبھی شکوی نہ کرو

Monday, March 28, 2011

اداس رہنا سکھا دیا ہے، تری وفا کی عنایتیں ہیں

اداس رہنا سکھا دیا ہے، تری وفا کی عنایتیں ہیں
لٹا دی جس پر حیات ساری، اسی کو ہم سے شکایتیں ہیں

حضور چاہت میں سرخروئی بھی راس آئے کسی کسی کو
بہت ہیں ہم سے بھی بے مقدر کہ جیت کر بھی ندامتیں ہیں

کسی نے پتھر پہ ماتھا ٹیکا، کسی نے پایا ہے طورِ سینا
عطا ہے اس کی جسے نوازے ، وگرنہ سب کی ریاضتیں ہیں

او میرے صاحب میں تیری داسی، تری حکومت ہیں جان و تن پر
جہاں بھی جائوں میں زندگی بھر، تری نظر کی حفاظتیں ہیں

کسی کی آنکھوں کا خواب ہیں وہ، کوئی یہ سمجھے عذاب ہیں وہ
جو مل نہ پائے انہی کو چاہے، عجب یہ دل کی روایتیں ہیں

ہوا کی بیٹی کی رخصتی کے وقت

یوں بھی دیکھا ہے بارہا ہم نے
ہوا کی بیٹی کی رخصتی کے وقت
کوئی آنکھ اشک بار نہ تھی
لے کے لمبی سی سانس سب نے
یہی کہا تھا زیرِ لب
ترا شکر ہے یا خدا
ہمارے کاندھوں کا بوجھ تو نے
کسی کے کاندھوں پہ رکھ دیا ہے

ہم نے اس دل کو بڑی دیر سلائے رکھا

ہم نے اظہار کو سانسوں میں دبائے رکھا
ایک طوفان تہہِ آب چھپائے رکھا

تو نے چھیڑا ہے تو دھولک کی طرح بجنے لگا
ہم نے اس دل کو بڑی دیر سلائے رکھا

Sunday, February 6, 2011

میرے سورج کی کشش باندھ نہ پائی مجھ کو

ہم نے چپ چاپ جیے جانے کی عادت پا لی
تم نہ مل پائے تو دنیا کی حقیقت پا لی

اب بھی بیٹھیں تو فقط سوچتے رہتے ہیں تجھے
عشق پایا کہ مفکر کی طبیعت پا لی

ایک لمحہ جو ترے پیار نے بخشا تھا کبھی
ہم نے اس لمحے میں سو سال کی مدت پا لی

ہم کو معلوم ہے بے تاب سے پھرتے ہیں یہاں
لوگ کہتے ہیں کہ مرحوم نے جنت پا لی

میرے سورج کی کشش باندھ نہ پائی مجھ کو
سو خلائوں میں بھٹک جانے کی قسمت پا لی

ہم نے کچھ دیر ترے عشق سے غفلت کی تھی

بھاپ سا بکھرا تھا سمٹا تو وہ بادل ہو گیا
چاند کے بیچ میں چپکے سے جو حائل ہو گیا

ہم نے کچھ دیر ترے عشق سے غفلت کی تھی
دیکھتے دیکھتے نظروں سے تو اوجھل ہو گیا

وہ محبت میں تعلق کا طلبگار تھا بس
ہم نہ آئے تو کسی اور کا ساحل ہو گیا

میں بھی سمجھوں کہ یہ بدلی سی ادائیں کیوں ہیں؟
کون ہے وہ جو تری روح میں شامل ہو گیا

اب تو معمول سا لگتا ہے محبت میں ریحاں
جو بھی چاہا وہ کسی اور کو حاصل ہو گیا

Saturday, February 5, 2011

دیکھیے مقدر کی عمر کتنی ہوتی ہے

زندگی ہماری بھی راستے کی کھیتی ہے
اک طرف مقدر ہے، روز روندھ جاتا ہے

اک طرف ہماری ضد، روز کاشت کرتے ہیں
دیکھیے مقدر کی عمر کتنی ہوتی ہے!

Friday, February 4, 2011

یہ برس مگر کوئی اور ہے

وہی آپ ہیں وہی خواب ہے، یہ برس مگر کوئی اور ہے
وہی حسن و عشق و شباب ہے ، یہ برس مگر کوئی اور ہے

کبھی زیر لب، کبھی آنکھ سے ، کبھی مسکرانے کی اوٹ سے
وہی دھیما دھیما خطاب ہے ، یہ برس مگر کوئی اور ہے

مری جیب میں مرے ہاتھ میں، یہ جو عمر بھر کی کمائی ہے
تری اک نظر کا حساب ہے، یہ برس مگر کوئی اور ہے

Wednesday, January 26, 2011

جب سے نکلا ہو اس گلی سے میں

جب سے نکلا ہو اس گلی سے میں
راستہ بھولنے کی عادت ہے

دل ناداں کے شوق اپنی جگہ
حسن کی اپنی اک روایت ہے

Thursday, January 20, 2011

مسکراہٹ

مسکراہٹ سے دیکھ لیتے ہو
مسکراہٹ میں بات کرتے ہو
مسکراتے ہی دھیرے دھیرے سے
ہم کو یوں لاجواب کرتے ہو
نرم پلکوں سے بند ہونٹوں تک
ایک رشتہ ہے مسکراہٹ کا
ان کہی ان سنی سی آہٹ کا
بس ایک رشتہ ہے مسکراہٹ کا

ایک لمحا جو قضا ہو گیا

ایک لمحے کو سوچتا رہتا ہوں
ایک لمحے کو کوستا رہتا ہوں
ایک لمحہ جو خطا ہو گیا
ایک لمحا جو قضا ہو گیا

انجینیر خرم

Saturday, January 15, 2011

ہم تو وہ سیارے ہیں

ہم تو وہ سیارے ہیں
جو رہ سکیں مدار میں
نہ چل سکیں قظار میں
یہ لا ابالی عادتیں
یہ جذب ِ دل کی حالتیں
ڈگر ڈگر گھمائیں گی
نگر نگر رلائیں گی
کہ کوئی بھی کشش ہمیں
نہ رکھ سکے گی دیر تک
کہ کوئی بھی نظر ہمیں
نہ چکھ سکے گی دیر تک
فطرت مزاج کا
کوئی کیا بگاڑ لے
دل کے اضطراب کی
کوئی کیا دوا کرے
کیا کہیں کہ کس لیے
اس قدر اداس ہیں
بے وجہ ہی خوش ہوئے
بے وجہ اداس ہیں
نہ چل سکیں خلاف ہی
نہ جی لگے ہے پیار میں
ہم تو وہ سیارے ہیں
جو رہ سکیں مدار میں
نہ چل سکیں قظار میں

Friday, January 14, 2011

خواب ہی خواب بھرے ہیں مرے خالی تن میں

ساحلی ریت پہ تصویر بناتا کیوں ہے
کارِ بے کار میں یہ عمر گنواتا کیوں ہے

خواب ہی خواب بھرے ہیں مرے خالی تن میں
اس قدر شوق سے آنکھوں کو ملاتا کیوں ہے

Monday, January 3, 2011

ہم لوگ کدھر جائیں

اس عقل کی دنیا میں
سب لوگ سیانے ہیں
سب دیکھ کے چلتے ہیں
سب سوچ کے کہتے ہیں
لیکن اسی دنیا میں
کچھ ہم سے جنوں پیشہ
جو پیار کے شیدائی، جو عشق میں سودائی
یہ لوگ کدھر جائیں
اس ظاہری دنیا میں
سب روگ ہیں جسموں کے
جو دل نے سنبھالے ہیں
وہ روگ کدھر جائیں
ہم لوگ کدھر جائیں

Saturday, January 1, 2011

زندگی کے سودوں میں

زندگی کے سودوں میں
احتیاط لازم ہے
زندگی کو عادت ہے
دوہری چال چلنے کی
ہم سے سادہ لوحوں سے
ہیر پھیر کرنے کی
ایک بار میں نے بھی
بہت مہنگے نرخوں میں
روشنی کے رنگوں سا مال کچھ خریدا تھا
گھر میں جا کے دیکھا جب
زیوروں کے ڈبوں میں
روڑیاں تھیں مٹی کی
زندگی کے سودوں میں
احتیاط لازم ہے!

عشق تو ایسے جان میں اترے

عشق تو ایسے جان میں اترے
موتیا جیسے آنکھ میں اترے

عشق اترے تو پھر ٹھہر جائے

عشق تھا تو کہا ں گیا ہے اب
برف جیسا تو عشق ہوتا نہیں
دھوپ پڑنے سے جو پگھل جائے
عمر جیسا بھی عشق ہوتا نہیں
لمحہ لمحہ سا جو گزر جائے
عشق اترے تو پھر ٹھہر جائے
آنکھ میں جیسے کوئی مر جائے