Wednesday, November 30, 2011

میں اپنی شکل کی حسرت میں جھومتا ہی گیا

میں اپنی شکل کی حسرت میں جھومتا ہی گیا
جفا کے چاک پہ دن رات گھومتا ہی گیا
تجھے میں جیت گیا پر یہ جیت آخری تھی
پھر اس کے بعد میں ہر پل کو ہارتا ہی گیا
میں ضد پرست تھا کوشش سے باز نہ آیا
مگر نصیب مرا زور توڑتا ہی گیا
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر خموش چلتا رہا
اگرچہ شور ہوا کا پکارتا ہی گیا
میں عام شخص سہی پھر بھی خاص تھا دل کا
مگر یہ زعمِ وفا دل کو روندھتا ہی گیا
میں جب بھی قتل ہو دل کے فیصلوں سے ہوا
 مگر میں کیا کہوں دھڑکن سے ہارتا ہی گیا

No comments:

Post a Comment