Thursday, October 31, 2013

اب سہل ہو گیا جدا ہونا

پردہِ سیمیں پہ جب دیکھا ترا پھول بدن
سارے کمرے میں مہکنے لگی تو روشنی سی


اب ترے پیار سے نکل آئے
اب سہل ہو گیا جدا ہونا



Sunday, October 27, 2013

نفس وہ خون خوار وحشی ہے

نفس وہ خون خوار وحشی ہے
بھوک بڑھتی ہے جس کی کھانے سے
پیٹ تو ریت سے بھی بھر جائے

جسم کو جسم کا وہ چسکا ہے
ایک لمحے کے لمس کی خاطر
موت کی حد پھلانگتے دیکھا


اپنی فطرت سے خوف آتا ہے
یعنی خلوت سے خوف آتا ہے
خواہشیں بے لگام کر دے گی
تیری صورت سے خوف آتا ہے

Saturday, October 26, 2013

دل پہ کچھ اختیار تھوڑی ہے

دل پہ کچھ اختیار تھوڑی ہے
دھکا شاہی ہے پیار تھوڑی ہے

نفع و نقصان کا سوال نہ کر
عشق ہے کاروبار تھوڑی ہے

کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ
جوخدا پر یقین رکھتے ہیں

معبدوں میں صبح صبح جا کر
رب سے راز و نیاز کرتے ہیں

کلمہ رد محبت کوئی سکھلائے مجھے

زندگی کیا تھی بیا باں تھا کوئی بے آباد
اپنے ہاتھوں سے ہی تزئین و آرائش کی ہے

راحتیں ایسی کوئی خاص نہیں ہیں تجھ میں
بات اتنی ہے کہ رستے میں کئی صحرا تھے

دل کی نقدی بھرے بازار میں لٹ سکتی ہے
حسن جادوہے کسی وقت بھی چل سکتا ہے

کلمہ رد محبت کوئی سکھلائے مجھے
عمر کے ساتھ ارادے بھی تو کمزور ہوئے


حسن کا بے پناہ سرمایا

خاک تھا خاک سے نمو پایا آیا
خاک کو خاک میں ہی دفنایا

تھا جو مکھی کے پر سے بے توقیر
جانے کس زعم پر ہے اترایا

کچھ ہمیں راستے میں روندھ گئے
کچھ کو ہم نے بھی یونہی ٹھکرایا

ہر کوئی اپنے خواب کے پیچھے
ہر کوئی اپنے پیٹ کا جایا

عشق کے نام پر ہوس نے ہی
ہر جگہ اپنا کاروبار چمکایا

ہم نے بھی ایک بار دیکھا تھا
حسن کا بے پناہ سرمایا

آنکھ برداشت کر سکی نہ اسے
دل دھڑکتے دھڑکتے چکرایا


دیکھا تو آنکھ سے چھلکنے لگا
سوچا تو سوچ میں نہ لا پایا

سر میں جھکڑ چلے بلاوں کے
گویا طوفان دشت میں آیا






Friday, October 25, 2013

سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا

سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا
جیسے صحرا میں آندھی بھرتی ہے
نظر آئے نہ کچھ سمجھ آئے
دھول ہی دھول ہر طرف ہے بس
سچ ہی کہتے تھے  مولوی حضرات
ایک لمحہ لگا قیامت کو!!!!!!!!!!!
سر میں ایسے بھرا ہے عشق ترا

کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟



یہ جو دریا ہیں سبھی بہتے ہیں ساگر کی طرف
کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟

ہم سے کچھ سر پھرے جھکڑ بھی تو ہوتے ہیں جو
صبح سے شام تلک خاک اڑاتے رہیں یونہی ہر سمت
دل لگی چلتی رہی دشت سے دیوانوں کی

کچھ ندی نالے جو دریا سے الجھ پڑتے ہیں
انو نکل پڑتے ہیں پھر بانجھ زمینوں کی طرف
بانجھ کی گود پری کرتے ہیں مر جاتے ہیں


یہ جو دریا ہیں سبھی بہتے ہیں ساگر کی طرف
کیا ضروری ہے بس اک سمت میں چلتے جانا؟؟؟

Thursday, October 24, 2013

مہمان چاہے جو بھی ہو رحمت خدا کی ہے

آیا ہے درد اٹھیے گلے سے لگائیے
مہمان چاہے جو بھی ہو رحمت خدا کی ہے

جینے کا اہتمام بھی آسان تو نہیں

روٹی بھی دستیاب ہو کپڑا، مکاں بھی ہو
جینے کا اہتمام بھی آسان تو نہیں

Tuesday, October 22, 2013

وقت کا ہاتھ تھامنا کیسا

بس یہی سوچ کے ہر درد سہے جاتے ہیں
زندگی رکتی نہیں رکتی نہیں رکتی نہیں

زندگی! اک دفعہ بتا ہی دے
اور کیا کیا ہے تیرے دامن میں

وقت رکّا ہے اور نہ رکّے گا
ہم کو رکنا پڑے کا بالآخر
وقت کا ہاتھ تھامنا کیسا؟؟؟


Monday, October 21, 2013

مجھے افسوس ہے مگر ہمدم

اس سے پہلے کہ میری آنکھوں میں
تیرے چہرے کا رنگ روپ آئے
اس سے پہلے کہ تیری آنکھوں کو
کوئی پچھتاوا گیلا کر جائے
میری آمد سے تھوڑا پہلے ہی
سر پہ گھونگھٹ نکال لینا تم
اور قرآنِ پاک کے سائے
اپنے پی گھر سدھار جانا تم
مجھے افسوس ہے مگر ہمدم
کچھ فسانے بس ایسے ہوتے ہیں
انہیں جتنا بھی طول دے دیں وہ
نامکمل ادھورے رہتے ہیں

بات کس کی تھی کس سے کر بیٹھے

کچھ بھی ملتا نہیں خیا لوں سا
کوئی ہوتا نہیں مثالوں سا
بات کس کی تھی کس سے کر بیٹھے
عشق اپنا خراب حالوں سا

وہ زباں دفتر و مکتب سے نکالی کس نے

میں یہیں کا مرا والد بھی یہیں کا لیکن
درد ہجرت کا وراثت میں ملا ہے پھر بھی
میرے آبا نے وطن چھوڑا تھا روزی کے لیے
میری اولاد نے تہذیب و ثقافت چھوڑی

اہنی دھرتی کا قرض کیسے چکا پائے گی
یہ نئی نسل جو ماں بولی سے بیگانی ہے

وہ زباں جس نے مجھے بولنا سکھلایا تھا
وہ زباں دفتر و مکتب سے نکالی کس نے

جو اہلِ زر ہیں وہی سب سے معتبر بھی ہیں

بڑے عجیب سے معیار ہے زمانے کے
جو اہلِ زر ہیں وہی سب سے معتبر بھی ہیں

Friday, October 11, 2013

ایک لمحہ بھی سرکتا نہیں پیسوں کے بغیر

وقت! سرکاری دفاتر کا کوئی رشوت خور
ایک لمحہ بھی سرکتا نہیں پیسوں کے بغیر

عمر کی فکر نہ کر عمر کہاں جائے گی
بھوک اور پیاس کا سورج نہیں ڈھلنے والا

Thursday, October 10, 2013

درد کیسا بھی ہو اور کتنی ہی شدت کا ہو

درد کیسا بھی ہو اور کتنی ہی شدت کا ہو
رفتہ رفتہ ہو ہی جاتا ہے موافق دل کے
سیکھ جاتے ہیں ہنر جینے کا وہ بے کس بھی 
کہ جنہیں کچھ بھی نہیں ملتا مطابق دل کے

Wednesday, October 9, 2013

سرخ لب چاند جبیں پھول بدن سب روٹی

ایک سادھو کو میسر نہ ہوئی جب روٹی
تو مجھے کہنے لگا دین دھرم رب روٹی

پیٹ کی بھوک نے خواہش کا گلا گھونٹ دیا
سرخ لب چاند جبیں پھول بدن سب روٹی

جو تیرے ہاتھوں سے دھل جائے میل کی صورت

ضروریات کا چابک کمر ہہ ہے اور ہم
بدکتے جاتے ہیں کولھو کے بیل کی صورت
یہ کس کے واسظے تو خون پانی کرتا ہے
جو تیرے ہاتھوں سے دھل جائے میل کی صورت