Saturday, October 26, 2013

حسن کا بے پناہ سرمایا

خاک تھا خاک سے نمو پایا آیا
خاک کو خاک میں ہی دفنایا

تھا جو مکھی کے پر سے بے توقیر
جانے کس زعم پر ہے اترایا

کچھ ہمیں راستے میں روندھ گئے
کچھ کو ہم نے بھی یونہی ٹھکرایا

ہر کوئی اپنے خواب کے پیچھے
ہر کوئی اپنے پیٹ کا جایا

عشق کے نام پر ہوس نے ہی
ہر جگہ اپنا کاروبار چمکایا

ہم نے بھی ایک بار دیکھا تھا
حسن کا بے پناہ سرمایا

آنکھ برداشت کر سکی نہ اسے
دل دھڑکتے دھڑکتے چکرایا


دیکھا تو آنکھ سے چھلکنے لگا
سوچا تو سوچ میں نہ لا پایا

سر میں جھکڑ چلے بلاوں کے
گویا طوفان دشت میں آیا






No comments:

Post a Comment