خاک تھا خاک سے نمو پایا آیا
خاک کو خاک میں ہی دفنایا
تھا جو مکھی کے پر سے بے توقیر
جانے کس زعم پر ہے اترایا
کچھ ہمیں راستے میں روندھ گئے
کچھ کو ہم نے بھی یونہی ٹھکرایا
ہر کوئی اپنے خواب کے پیچھے
ہر کوئی اپنے پیٹ کا جایا
عشق کے نام پر ہوس نے ہی
ہر جگہ اپنا کاروبار چمکایا
ہم نے بھی ایک بار دیکھا تھا
حسن کا بے پناہ سرمایا
آنکھ برداشت کر سکی نہ اسے
دل دھڑکتے دھڑکتے چکرایا
دیکھا تو آنکھ سے چھلکنے لگا
سوچا تو سوچ میں نہ لا پایا
سر میں جھکڑ چلے بلاوں کے
گویا طوفان دشت میں آیا
No comments:
Post a Comment