Monday, March 28, 2011

اداس رہنا سکھا دیا ہے، تری وفا کی عنایتیں ہیں

اداس رہنا سکھا دیا ہے، تری وفا کی عنایتیں ہیں
لٹا دی جس پر حیات ساری، اسی کو ہم سے شکایتیں ہیں

حضور چاہت میں سرخروئی بھی راس آئے کسی کسی کو
بہت ہیں ہم سے بھی بے مقدر کہ جیت کر بھی ندامتیں ہیں

کسی نے پتھر پہ ماتھا ٹیکا، کسی نے پایا ہے طورِ سینا
عطا ہے اس کی جسے نوازے ، وگرنہ سب کی ریاضتیں ہیں

او میرے صاحب میں تیری داسی، تری حکومت ہیں جان و تن پر
جہاں بھی جائوں میں زندگی بھر، تری نظر کی حفاظتیں ہیں

کسی کی آنکھوں کا خواب ہیں وہ، کوئی یہ سمجھے عذاب ہیں وہ
جو مل نہ پائے انہی کو چاہے، عجب یہ دل کی روایتیں ہیں

ہوا کی بیٹی کی رخصتی کے وقت

یوں بھی دیکھا ہے بارہا ہم نے
ہوا کی بیٹی کی رخصتی کے وقت
کوئی آنکھ اشک بار نہ تھی
لے کے لمبی سی سانس سب نے
یہی کہا تھا زیرِ لب
ترا شکر ہے یا خدا
ہمارے کاندھوں کا بوجھ تو نے
کسی کے کاندھوں پہ رکھ دیا ہے

ہم نے اس دل کو بڑی دیر سلائے رکھا

ہم نے اظہار کو سانسوں میں دبائے رکھا
ایک طوفان تہہِ آب چھپائے رکھا

تو نے چھیڑا ہے تو دھولک کی طرح بجنے لگا
ہم نے اس دل کو بڑی دیر سلائے رکھا