Friday, April 14, 2017

paish lafz for uet literary society magazine rida e sukhan



پیش لفظ
میں وہاں ہوں جہاں جہاں تم ہو
تم کرو گے کہاں کہاں سے گریز     (احمد فراز)
یہ ہے اس تعلق کا خلاصہ جو لٹریری سوسائٹی اور اس کے ممبران کے درمیان ہے! یہ وہ قلعہ ہے جس کا داخلی دروازہ تو ہے لیکن خارجی درواذہ کوئی نہیں- تصوف کی زبان میں سمجھیں تو یوں ہے جزو کل کا حصہ بنتا ہے تو جزویت کھو دیتا ہے یعنی جب آتا ہے تو لٹریری سوسائٹی کا رکن بنتا ہے اور جب جاتا ہے تو لٹریری سوسائٹی ہوتا ہے، یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ جادو ہے جو سر چڑھ کے بولتا ہے ۲۰۰۳ سیشن کی زاہرہ علیم ۲۰۱۳ کے مشاعرے میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے آتی ہیں، ہے نا جادو!
مجھ سے کہا گیا ہے کہ لٹریری سوسائیٹی کے ساتھ اپنی یادوں کو قلمبند کروں، لٹریری سوسائیٹی کے ساتھ تعلق کو دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، یہ سال ۲۰۰۳ تھا، اور موسم ِ بہار تھا جب میں چند نظمیں فوٹو کاپی کروائے کوآرڈینیر کے کمرے میں گیا اور ہر جمعرات میٹنگ میں آنے کا عہد کیا! یہ الگ بات ہے کہ ان دنوں ہر ہفتے جمعرات نہیں آتی تھی! اور ہمارا الوداٰعی عشائیہ سال ۲۰۰۶ کے جاڑوں یعنی موسم خزاں میں ہوا تھوڑا رومانوی اور فلمی انداز میں کہوں تو یوں ہوگا
پھولوں کے موسم میں ملنے آتے ہیں
پت جھڑ میں پنچھی بن کر اڑ جاتے ہیں!!!!!
یا اختر حسین جعفری کے الفاظ میں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
جب میں ۲۰۱۳ کے مشاعرے میں گیا تو سوچ رہا تھا، کچھ بھی نہیں مرتا، نہ کہانی نہ کردار اور نہ سٹیج، یہاں تک کہ شکلیں بھی کم و بیش وہی رہتی ہیں وہ ۲۰۰۳ تھا اور یہ ۲۰۱۳ لیکن اج بھی لٹریری سوسائٹی میں ایک اشفاق انور موجود ہے جس کی ذہانت اور سنجیدگی سے بھرپور شاعری کسی اور ہی فضا میں لے جاتی ہے، مدثر عظیم بھی جو
اتنا لمبا کش لو یارو دم نکل جائے
 زنگی سلگائو یارو غم نکل جائے
کے مصداق غم دیروز اور فکرِ امروذ کو بھلانے کا ہنر جانتا ہے، کوئی رائحہ ٰعابدی بھی ہے جس کا
اپنی یاد تک چھین لے مجھ سے
مجھ کو پوری طرح سے کر تنہا
جیسا شعر آج بھی شاعری کے مقابلوں میں یمارا سر فخر سے بلند کرتا ہے عمیر بٹ بھی ہے جو لہجے اور اطوار میں ملک اللشعرا استاد ابراہیم ذوق کا ہم عصر لگتا ہے اور ارم ثنا اللہ بھی ہے جس کی "خامشی" جیسی نظموں  کا ذائقہ آج بھ زبان سے چپکا ہوا ہے لیکن کیا کیا جائے  وقت کا جو کبھی ٹکتا ہے ہی نہیں مری اک نظم ہے
کئی دفعہ یہ خیال آیا دل میں شدت سے
کہ کاش وقت کا گھوڑا نکیل دیتا مجھے
کچھ ایسے پل تھے کہ سالوں ٹھہرنا تھا جن میں
کچھ ایسے سال تھے جو بائی پاس کرنے تھے
یہ پل یقینا لٹریری سوسائیٹی کے دور کے ہیں اور یہ سال پروفیشنل لائف کے!
خیر---------- قصہ مختصر، صحرا کو اس بات سے غرض نہیں ہے کہ ناْقہ پہ سوار کون ہے وہ تو گھنگھرووں، گھنٹیوں ، حدی خوانوں کی مدھر تانوں اور دھول اڑاتے پیادوں کا رسیا ہے صحرا بھی وہی رہتا ہے قافلے بھی وہی، سفر ختم ہوتا ہے تو بس مسافر کا -- اور جو بھی مسافر یو ای ٹی لٹریری سوسائٹی کے اس قافلے سے بچھڑتا ہے یہی کہتا ہے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تو نے مجھ کو پرو کے رکھا تھا

                                                                                                                                                                                                                                                                                                     تحریر : محمد ریحان عباس چوہدری سیشن ۲۰۰۳





UET Literary society report in echo