Thursday, May 31, 2012

درگزر کرتا ہوں کہ دیتا ہوں چل جانے دے

اپنے آنسو مری آنکھوں سے نکل جانے دے
لگ جا سینے سے مرا درد پگھل جانے دے

اپنے غم خانے میں پھر لوٹ ہی جانا ہے مجھے
خواب کے چند ہی لمحے ہیں بہل جانے دے

دامنِ عشق بھی سب جھاڑ لیا کچھ نہ ملا
لالچِ حسن نہ دے اب تو سنبھل جانے دے

مار ڈالے گا یہ احساسِ زیاں سورج کو
آخری وقت ہے آرام سے ڈھل جانے دے

دل کی مانوں تو بگڑ بیٹھوں زمانے بھر سے
درگزر کرتا ہوں کہہ دیتا ہوں چل جانے دے

میرے مولا مرا ایمان مکمل کر دے

میرے مولا مرا ایمان مکمل کر دے
یا مجھے کفر میں دل کھول کے جی لینے دے
راستہ بیچ کا لگتا ہے بہت ہی مشکل

ہے پیاس اتنی کہ ساگر بھی گھونٹ میں پی لوں

برسنا ہے تو برس جا مری طلب مت پوچھ
ہے پیاس اتنی کہ ساگر بھی گھونٹ میں پی لوں

عشق بھی مرتا ہے انسان کی صورت ہمدم

عشق بھی مرتا ہے انسان کی صورت ہمدم
جسم رہ جاتا ہے اور روح نکل جاتی ہے

ہائے کس زعم میں ہے اب تک تو

کوئی حصہ نہیں جہاں میں ترا
ہائے کس زعم میں ہے اب تک تو

میں نے روکا نہیں مروت میں

میں نے روکا نہیں مروت میں
جان تک آ گئے عزیز مرے

طرب خانہِ دنیا میں کوئی حصہ نہیں میرا

مجھے برباد ہونا ہے، مجھے برباد ہونے دو
مجبت کھینچ لو واپس، مجھے ناشاد ہونے دو
طرب خانہِ دنیا میں کوئی حصہ نہیں میرا
نہ جھوتے خواب دو دشتِ جنوں آباد ہونے دو

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو
بس ایک تم ہی مجھے پھر سے جوڑ سکتے ہو
وگرنہ گردِ زمانہ کو آنکھ میں بھر کر
کچھ ایسے بکھروں گا صحرا میں جابجا اے دوست
مرے وجود کا ذررہ بھی مل نہ پائے گا
سو جس کے ہاتھ لگا جتنا اتنا رکھ لے گا
حریص لوگ مجھے ایسے کاٹ کھائیں گے
کہ جیسے مالِ غنیمت بٹے ہے حصوں میں

میرے ماتھے پہ ترا نام لکھا ہے لیکن

روح صحرا میں بھٹکتی پھرے تنہا تنہا
جسم آلائشِ دنیا کی حراست میں ہے
میرے ماتھے پہ ترا نام لکھا ہے لیکن
زندگی ساری کسی اور کی صحبت میں ہے

خود کو تقسیم کیے پھرتا ہوں ماشہ ماشہ

مجھ پہ جو غیر کا قبضہ ہے چھڑایا جائے
جسم اور روح کو یک بار ملایا جائے
خود کو تقسیم کیے پھرتا ہوں ماشہ ماشہ
کوزہ گر پھر سے مجھے چاک پہ لایا جائے

Wednesday, May 30, 2012

جب تجھے دیکھوں تو احساسِ زیاں بڑھتا ہے

اے مری جانِ جہاں سامنے مت آیا کر
کہ تجھے دیکھ کے احساسِ زیاں بڑھتا ہے

Saturday, May 26, 2012

تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے




تم سمجھتے یو سہولت ہے مجھے
سانس لینا بھی مشقت ہے مجھے

میں کسی اور جہاں کا شاید
یہ جہاں باعثِ حیرت ہے مجھے

ڈھونڈتا ہوں کوئی اپنے جیسا
یعنی خود سے ہی محبت ہے مجھے

یہ جو بکھرا سا میں رہتا ہوں اب
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

خوش رہیں لوگ یہ عزت والے
دل کی اتنی ہی وصیت ہے مجھے

آنکھ ساگر سی کوئی لے ڈوبے
اب اسی موت کی حسرت ہے مجھے

میں کسی اور جہاں کا شاید
یہ جہاں باعثِ حیرت ہے مجھے

تو ہے مومن تجھے جنت کا یقیں
میری تشکیک قیامت ہے مجھے

Friday, May 25, 2012

چار روپے


وہ ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ
میرے رشتے کو کوئی نام نہ تھا
یا یوں کہیے کوئی رشتہ ہی نہ تھا
کہ رشتہ تو دو لوگوں کے بیچ ہوتا ہے
وہ تو آتا تھا تو میں بھول جاتا تھا
کہاں ختم ہوتی ہے ذات میری
اور کہاں شروع ہوتی ہے ذات اس کی!!_______
وہ آج آیا، بیٹھا، چائےپی باتیں کی!!
جانے لگا تو اپنے کپ کے پیسے مجھے دے گیا
تب میں نے جانا
کہ میرے سارے جزبات و احساسات محض جھوٹے مفروضات تھے
جن کی قیمت پاکستانی کرنسی کے فقط چار روپے تھی

2004 Zubair Hall!


Thursday, May 24, 2012

آدمی ہیں خدا نہیں ہیں ہم

سانپ کھاتا سنپولیے کھائے
ترس کھانا کبھی نہ تم ان پر
سانپ کے بچے سانپ ہی تو ہیں
تم کو ڈ س جائیں گے بڑے ہو کر
اس قدر دردِ دل بھی اچھا نہیں
آدمی ہیں خدا نہیں ہیں ہم

روشنی خوابِ محبت سے ضروری ٹھہری

خٔواب رکھ آیا ہوں طاقوں میں چراغوں کی جگہ
روشنی خوابِ محبت سے ضروری ٹھہری

میں نے جس کے لیے تج دی تھی جوانی کی بہار

ذات کا محل گرا ڈالا کہ پوشیدہ تھی
میری تخریب میں تعمیر مرے بچوں کی
میں نے جس کے لیے تج دی تھی جوانی کی بہار
اب وہی میرے بڑھاپے کی اڑاتا ہے ہنسی

آغاز سےانجام تک چاہت کی اتنی داستاں

آغاز سےانجام تک چاہت کی اتنی داستاں
مجبوریاں مجبوریاں مجبوریاں مجبوریاں

مجھے لگ رہا ہے کہ اس خوبرو پر محبت کا آسیب چھایا ہوا ہے

کبھی گنگھرئوو ں کی کبھی قہقہوں کی کبھی رونے والوں کی آواز آئے
مجھے لگ رہا ہے کہ اس خوبرو پر محبت کا آسیب چھایا ہوا ہے

اتفاقا ملا ہوں میں تجھ سے

اتفاقا ملا ہوں میں تجھ سے
اتفاقا بچھڑ بھی سکتا ہوں
اب بہت راس ہوں تجھے لیکن
آدمی ہوں بگڑ بھی سکتا ہوں

دنیا کی اوقات

آج میں جان گیا دنیا کی اوقات کہ جب
بیٹےنے باپ کے رخسار پہ تھپڑ مارا

اے مصور ذرا اس عشق کو تصویر تو کر

ہم بڑی دیر سے رستے میں کھڑے ہیں چپ چاپ
آگے بڑھتے ہیں تو اب راہیں جدا ہوتی ہیں

اے مصور ذرا اس عشق کو تصویر تو کر
دل ملے جائیں مگر باہیں جدا ہوتی ہیں

Wednesday, May 23, 2012

خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

دل میں ٹھہرے ہے نہ پلکوں پہ ہی رکھا جائے
خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

ایسی ناکام محبت کا کوئی کیا کر لے
وہ مرے ساتھ چلے اور نہ تنہا جائے

مسئلہ قرب و جدائی کا تو چھوڑو کہ ابھی
عشق کس طرز کا ہوگا یہی سوچا جائے

ذہن بھی سوچ بھی آنکھیں بھی جگر بھی دل بھی
سب ترا پھر بھی مجھے غیر کا سمجھا جائے

جان تو یار کی چوکھٹ پہ ہی دھر آئی وہ
جسم کیا لاش ہے اب جس کو بھی سونپا جائے

مجھ کو معلوم ہے اوقات مقددر کی مگر
دل بہلتا ہے جو خوابوں سے بہلتا جائے

خود کو ایذا نہیں دیتا مگر اس عشق میں اب
درد کا کوئی نشہ سا ہے کہ چڑھتا جائے

میری تنہائی مرےچاروں طرف پھیلی ہے

میری تنہائی مرےچاروں طرف پھیلی ہے
مجھ تک آتے ہوئے تنہا نہ کہیں ہو جانا
تو نے رکھا ہے زمانے کے رواجوں پر پائوں
مہم اچھی ہے پہ رسوا نہ کہیں ہو جانا

Monday, May 21, 2012

تمہاری ذات میں میری بھی حصے داری ہے

یہ کیسے سوچ لیا خود کو مار دو گے تم
تمہاری ذات میں میری بھی حصے داری ہے
کبھی کبھی تو مجھے یوں گمان ہوتا ہے
جو لے رہا ہوں میں وہ سانس بھی تمہاری ہے
بہت عجیب محبت کے سلسے ہیں دوست
عجیب قسم کی چاہت ہے بانٹتی ہے مجھے
کہیں پہ جسم دھرا کہیں ہیں پہ روح مری
اب اور مجھ سے نہ کہنا کہ وقت مرہم ہے
تمام عمر یہی سوچ کر گزاری ہے


تو مرے ساتھ سہی سائے کی صورت لیکن

تو مرے ساتھ سہی سائے کی صورت لیکن
میری تنہائی مری ذات کے اندر تک ہے

Thursday, May 17, 2012

واجبی سا ہی تعلق ہے شب و روز کے ساتھ

واجبی سا ہی تعلق ہے شب و روز کے ساتھ
ان کو مجھ سے کوئی مطلب نہ مجھے ان کی خبر

Wednesday, May 16, 2012

مری ماں تیری رحلت نے تو دنیا ہی بدل ڈالی

  حامد محبوب صاحب کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر کچھ اشعار لکھےہیں۔

خدارا آسمانوں کا یہ چہرہ اور ہے کوئی
یہ سورج اور ہے کوئی یہ چندا اور ہے کوئی
یا
وہ چندہ اور تھا کوئی یہ  گولہ اور ہے کوئی

مری ماں تیری رحلت نے تو دنیا ہی بدل ڈالی
وہ دنیا اور تھی کوئی یہ دنیا اور ہے کوئی

جو تیری گود میں خوش تھا، وہ تیرے ساتھ ہی ہوگا
مری ماں تیری فرقت میں یہ روتا اور ہے کوئی

میں اپنے آپ کو بھی اجنبی سا لگ رہا ہوں اب
وہ بچہ اور تھا کوئی ، یہ بوڑھا اور ہے کوئی

بہت ہی کھوکھلے سے ہیں سبھی رشتے سبھی جذبے
جو رب نے ماں سے باندھا ہے وہ دھاگا اور ہے کوئی

Tuesday, May 15, 2012

یہ میری شاخ سے ٹوٹا گلاب دیکھو تو!

یہ میری شاخ سے ٹوٹا گلاب دیکھو تو!
مرے پسر کی ذرا آب و تاب دیکھو تو!

Monday, May 14, 2012

پائوں میں بیڑیاں سہی آنکحھ تو آسماں پہ ہے

پائوں میں بیڑیاں سہی آنکحھ تو آسماں پہ ہے
زندگی خاک میں سہی، خواب تو کہکشاں پہ ہے

میں وہ پرندِ پر نوا، جب سے قفس میں قید ہوں
سارے چمن میں رقص ہے گیت مری زباں پہ ہے

تجھ کو بہشت کی طلب، تیرا سفر طویل تر
میں کہ رضا پہ راضی ہوں، مجھ کو سکوں یہاں ہہ ہے

تو ہے فقط تماش بیں زندگی اور کسی کی ہے
بولیے کس کا جسم ہے، سوچیے کون جاں پہ ہے

Sunday, May 13, 2012

ماں


ہستے رہتے تھے اگر ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی
ہم کو معلوم تھا ناراض نہیں ہوتی ماں

اے مرے دیدہِ تر تجھ سے میں شرمندہ ہوں

اے مرے دیدہِ تر تجھ سے میں شرمندہ ہوں
کہ کسی خواب کی تعبیر نہ دیکھی تو نے

Saturday, May 12, 2012

سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

سمجھوتا زندگانی سے کرنا پڑا مجھے
آخر ہوا کے ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے

میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑگیا
لیکن یہ جنگ جیت کے مرنا پڑا مجھے

جس کو حریف جان کے تلوار تھا می تھی
اس کا حلیف دیکھ کے جھکنا پڑا مجھے

یہ کیسی دو رخی ہے کہ بچپن سے جو پڑھا
ہو کر بڑا اسی سے مکرنا پڑا مجھے

"لالچ بری بلا" ہو کہ "سچ بول کا ثمر"
 وہ سب نصاب پھر سے پرکھنا پڑا مجھے

چاہت کا کوئی ربط عداوت نہ دوستی
سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

Friday, May 11, 2012

میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑ گیا

سمجھوتا زندگانی سے کرنا پڑا مجھے
آخر ہوا کے ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے
میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑ گیا
لیکن یہ جنگ جیت کے مرنا پڑا مجھے

Wednesday, May 9, 2012

تیری ہنسی سے میری ہیں سانسیں جڑی ہوئی

دیکھو خدا کے واسطے روٹھا نہ کیجیو
تیری ہنسی سے میری ہیں سانسیں جڑی ہوئی

تری اداسی مری جاں نکال دیتی ہے

ترے لبوں پہ پوں قرباں چٹکتی کلیاں تمام
تری اداسی مری جاں نکال دیتی ہے

Monday, May 7, 2012

رات

سونے والوں کو پتہ رات کسے کہتے ہیں
ہم تو اندھیرے اجالے  کا فرق جانتے ہیں

فرق = غیر موزوں

شدتِ جذبہِ وصال نہ پوچھ

اب محبت میں وہ مقام آیا
کہ تری یاد میں بدن ٹوٹے
شدتِ جذبہِ وصال نہ پوچھ
دل کی دھڑکن سے جانو تن ٹوٹے

خود کشی کرنے والی عورت

خود کشی کرنے والی عورت نے
جب سے بچے جنے ہیں سوچتی ہے
اب اکٹھے مریں گے ہم تینوں

ایک تم سے ہے گفتگو دل کی

ایک تم سے ہے گفتگو دل کی
ورنہ چپ چاپ عمر کاٹی ہے

تو نے بولا ہے ساتھ مشکل ہے

آج تو نبض ڈوبتی جائے
تم نے بولا ہے ساتھ مشکل ہے

کسی رشتے کا کوئی چہرہ نہیں

اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کا
جو دبا دے گلا وہ ایک شخص
جانے کس نظریے پہ زندہ ہے
پس یہ ثابت ہوا کہ دنیا میں
کسی رشتے کا کوئی چہرہ نہیں
کوئی مطلق کسی کا ہوتا نہیں

کس طرح زندگی سے بہلے گا

خود کشی مشغلہ ہو جس کا وہ
کس طرح زندگی سے بہلے گا
جو دعائوں میں موت ماگتا ہو
اپنی اولاد کو وہ کیا دے گا

بہت کمزور سے لگتے ہیں سبھی لوگ مجھے

بہت کمزور سے لگتے ہیں سبھی لوگ مجھے
زرد پتے ہوں کسی شاخ پہ لٹکے جیسے
آندھی آتی ہے تو دالان میں آ گرتے ہیں
لیکن آندھی بھی ضروری تو نہیں ہے صاحب
یوں بھی ہر روز کئی گرتے ہیں ہو کر بوڑھے
وقت چپ چاپ کیے جاتا ہے سب کچھ مٹی

Sunday, May 6, 2012

تو میرے خون میں شامل تو میری روح میں ہے
قراق و وصل کا جھگڑا تو اب رہا ہی نہیں

نوحہِ درد

نوحہِ درد بھی ہوگا تو کہاں تک ہوگا
تنگ آجائوں گا ہر روز کی تکرار سے میں

Saturday, May 5, 2012

سانس بھی مسلسل ہے، تیری یاد کی صورت

زندگی کا کچھ یوں بھی، تجھ سے سلسلہ نکلے
سانس بھی مسلسل ہے، تیری یاد کی صورت

یہ لوگ ضائع کر دیں گے

مجھ کو چھپا کے رکھ لو کسی کو نہ دیجیو
یہ لوگ ضائع کر دیں گے تم کو پتہ تو ہے

بیت باز

ہجومِ شہر بھی طارق عزیز بھی برہم
کہ جیت جائیں گے پھر سے یہ بیت باز مرے

اپنے دامن سے گانٹھ دے مجھ کو

تیری قربت کہ چند لمحوں میں
ہم نے صدیاں گزار لیں جیسے
تیری آنکھوں کی گہری جھیلوں میں
ہم نے آنکھیں اتار دیں جیسے
تیرے ہونٹوں کے نرم گوشوں میں
زندگی کا سراغ ملتا ہے
تیری باتوں میں ہے مسیحائی
نیم جاں سانس لینے لگتا ہے
تیرے پہلومیں نیند جیسا سکوں
اپنے پہلو میں باندھ لے مجھ کو
تیری آغوش جنتوں جیسی
اپنے دامن سے گانٹھ دے مجھ کو

تیرا چہرہ ہٹا نہ پلکوں سے

آج پھر سو نہیں سکا شب بھر
نیند آنکھوں میں کس طرح آتی
تیرا چہرہ ہٹا نہ پلکوں سے

Thursday, May 3, 2012

پھر سے تعمیر کر دیا تو نے

منہدم ہوچکا تھا کھنڈر تھا
پھر سے تعمیر کر دیا تو نے

مجھ کو دنیا میں مل گئی جنت

مجھ کو دنیا میں مل گئی جنت
میں محبت میں مر گیا تھا دوست

Wednesday, May 2, 2012

ترے بغیر بھی زندہ ہیں ہم مگر ایسے

ترے بغیر بھی زندہ ہیں ہم مگر ایسے
کہ سانس لینا گنہ میں شمار ہوتا ہے

دل میں جنت کا خٔواب رکھا ہے

جسم دوزخ میں جل رہا ہے مگر
دل میں جنت کا خٔواب رکھا ہے
رات بھر نیند آئے گی کیسے
شبستاں میں عذاب رکھا ہے

غم کا کوفہ ہے مگر اشک یزیدی ایسے

کاغذی پھول سے خوشبو کا تقاضا کر کے
بہت شرمندہ ہوں پتھر کو میں سجدہ کر کے

آنکھ تو دل سے  بھی بڑھ کر ہے دوانی لوگو
جو اٹھا لائی ہے پیتل کو بھی سونا کرکے

تم مقلد ہو محبت کے وفا کے دل کے
ایسی تقلید تمہیں چھوڑے گی رسوا کر کے

ہاتھ جذبات کا تھاما تھا چلا تھا جب میں
وقت دلدل میں مجھے لایا ہے تنہا کر کے

غم کا کوفہ ہے مگر اشک یزیدی ایسے
آنکھ کو چھوڑ گئے پیاس کا صحرا کر کے

جو میری ذات کے اندر ہے مجھ سے بھی زیادہ

جو مجھ سے بڑھ کے مری ذات میں سمایا ہے
وہ میرے حال سے واقف نہیں ہے حیرت ہے