Thursday, May 29, 2014

دولتِ درد میں تخفیف نہیں ہو سکتی

اک تسلی ہے مرے دل کو ترے ہوتے ہوئے
دولتِ درد میں تخفیف نہیں ہو سکتی

غم بھی کھاتاہوں  اذیت کا بھی رسیا ہوں بہت
یعنی تکلیف کی تکلیف نہیں ہو سکتی

عہد نامہِ محبت ہے ازل سے محفوظ 
دل کے الہام میں تحریف نہیں ہو سکتی


Wednesday, May 28, 2014

خواہش کا بوجھ ڈھوتے ہوئے گر گئے اگر

خواہش کا بوجھ ڈھوتے ہوئے گر گئے اگر
 پستی کی سب سے آخری حد تک گرو  گے پھر

Tuesday, May 27, 2014

لمحے لمحے کا رس نکالا جائے

عمر جتنی بھی ہو بہت ہے اگر
لمحے لمحے کا رس نکالا جائے

Monday, May 26, 2014

جیسے کوئی کتاب کو کھولے

جی میں آتا ہے ایسے کھولوں تجھے
جیسے کوئی کتاب کو کھولے
رکھ کے زانو پہ اور ذرا جھک کر
حرف در حرف پوروں میں گھولے

Saturday, May 24, 2014

خوبصورت ہے آدمی کتنا


خوبصورت ہے آدمی کتنا

اس کو صرف آدمی اگر سمجھو!!
جھوٹے ملبوس فرقوں ذاتوں کے
جھوٹ سارے اتار کر دیکھو!!!

Thursday, May 22, 2014

جیو کے لیے



اکیسویں صدی میں بھی سلطاں وہی رہے
غدّار کہہ کے مار دو جو ناپسند ہو

یہ اور بات کہ تم کو نظر نہیں آئے

یہ اور بات کہ تم کو نظر نہیں آئے
!!!نیاز لے کے کھڑے راستے میں ہم بھی تھے

ہمارے فاصلے دیکھے تو کون مانے گا
کہ ایک ہاتھ کی دوری پہ گاڑی چھوٹی تھی


پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی

پھر اس کے بعد کبھی زندگی نہ مل پائی
کہ وصل دائمی ٹھہرا، جدائی ختم ہوئی

ہزار کوششیں کر  کے جلا ہے پروانہ
قبول کر لی محبت جدائی ختم ہوئی 

Tuesday, May 20, 2014

لوگ ہاتھوں میں لے کے پھرتے ہیں

ایک لمحے کی بات ہے پیارے
سانس آتا تھا اب نہیں آتا

لوگ ہاتھوں میں لے کے پھرتے ہیں
اپنے اپنے عقیدوں کے پتھر

Saturday, May 17, 2014

بوڑھا فقیر کھانے میں منہ دے کے مر گیا

عمروں کی بھوک لمحوں میں مٹنا محال تھی
بوڑھا فقیر کھانے میں منہ دے کے مر گیا

اکیسویں صدی میں بھی سلطاں وہی رہا
!!!!غدار کہہ کے مار دو جو بد زبان ہو

Thursday, May 15, 2014

نفرت کا بیج ڈالیے اور بیٹھ جائیے

یہ فصل پھلتی پھولتی رہتی ہے خود بخود
نفرت کا بیج ڈالیے اور بیٹھ جائیے

ہندو کو مسلمان سے کر دجیے الگ
دو قومیت کے نعرے کا تڑکا لگائیے

ہندوکو ذات پات بہت راس آئے گی
مسلم کو سنی شیعہ کے خانوں میں لائیے

مذہب کے بعد اور بھی نکتے ہیں پھوٹ کے
قومی زبان رنگ و نسب آزمائیے

موقع شناسی فرقہ پرستی کے سوچ سے
لوگوں کو کاٹ ڈالیے جنت میں جائیے

Wednesday, May 14, 2014

اہلِ خدا کے نام

اک بار اس سے پوچھ لو وہ کس کے ساتھ ہے
ہے جنگ جس کے نام پہ وہ تو سبھی کا ہے

انسانیت کے مان کی توہین تھی کہ جب
انسانیت کے ماتھے پہ مذہب چھدا گیا
فرقہ پرست چند فقیہائے دین کو
لوگوں کو بانٹنے کا فریضہ دیا گیا


Monday, May 12, 2014

انسانیت کا رشتہ ہی کافی تھا جڑنے کو

کوئی بجا دے ڈھول ہمیں رقص کرنا ہے
ہم بے وقوف قوم ہیں مجموعی طور پر

مقبول چاہے جتنے تھے وہ رہنما نہ تھے
نفرت کا درس دے کے جو تقسیم کر گئے
انسانیت سے بڑھ کے نہیں دیں دھرم کوئی
!!تم کیسے دیندار تھے؟؟ انساں سے ڈر گئے
جوہر برادران نے ہجرت کرائی تھی
گم راہ لوگ رستے میں بے موت مر گئے
اور پھر جناح آگئے دو قومیت لیے
لاکھوں نہتے جان کو نذرانہ کر گئے
دو قومیتت  نے ڈالا تھا  تقسیم کا رواج
بنگالی روٹھ کر اسے سہ قومی کر گئے
ہم فصل کاٹنے کو ہی پیدا ہوئے تھے کیا
نفرت کا بیج ڈال کے اجداد مر گئے

دو  قومیت کے جھگڑے نے الجھا دیا ہمیں
انسانیت کا رشتہ ہی کافی تھا جڑنے کو

Saturday, May 10, 2014

یعنی

درد اور ہجر اور اکیلا پن
یعنی تم جی رہے ہو تفصیلا
راحت اور وصل اور بھری محفل
یعنی وہ جی رہے ہیں بس رسما

Friday, May 9, 2014

نیا زمانہ ہے گوگل پہ سرچ کرتے ہیں

وہ دور اور تھا جس میں بزرگ رہبر تھے
نیا زمانہ ہے گوگل پہ سرچ کرتے ہیں

میرے ہی بچے مجھے اجنبی سے لگتے ہیں

Sunday, May 4, 2014

کچھ راستے منزل پہ کبھی لا نہیں سکتے

کچھ آہیں جلاتی ہیں فقط اپنا ہی سینہ
کچھ آنسو فقط نل کی طرح بہتے ہیں بے جا
کچھ راستے منزل پہ کبھی لا نہیں سکتے
کچھ کوششیں کرتی ہیں فقط وقت ہی ضائع

منٹو تجھے سلام

سرسٹھ برس کے بعد بھی منٹو نہ مر سکا
سرحد پہ آج بھی ہے کھڑا ٹوبہ ٹیک سنگھ

بلوائی اور فسادی طبعی موت مر گئے
انسانیت کا مان رہا ٹوبہ ٹیک سنگھ

زن مرید


کہانی
ایک عورت کے ہاتھ پر اس نے
بیعت کی تھی بڑی عقیدت سے
عمر بھر پھر ذلیل ہوتا رہا
سبق
پیار میں پیروی نہیں کرتے
پیار میں صرف پیار کرتے ہیں
پیار آزادی ہے غلامی نہیں

بچھڑنے والوں کے سارے نشان مٹ جائیں

بس اک شبیہہ سی رہ جاتی ہے کہیں دل پر
بچھڑنے والوں کے سارے نشان مٹ جائیں
ازل سے آج تلک اتنے لوگ دفن ہوئے
کہ خاک چانیں تو ہرذرے میں نفس پائیں