Tuesday, February 25, 2014

مجازی خدا بھی اصلی خدا سے کم تو نہیں


پچھلے پانچ سالوں میں
پہلی دفعہ
میرے پڑوسی کے ہنسنے کی آواز آئی
اور اس کے ساتھ ہی کھلکھلائے
 !!اس کے بچے اور بیوی
(اور اب تک ہستےہی جا رہے ہیں )
!!مجازی خدا بھی اصلی خدا سے کم تو نہیں
 یہیں تک لکھا ہے کہ پھر آواز آئی
"ایک تھپڑ لگائوں کا کس کے"
 اب وہ اکیلا دھمکا رہا ہے
اور باقی سب آوازیں چپ ہیں
--------------مجازی خدا بھی

رب نے کیا چیز بنا دی عورت


حسن ایسا کہ آنکھ پھٹ جائے
رب نے کیا چیز بنا دی عورت

عشق کا ریشم بننا

رات دن الجھے رہیں روزی کے پھندوں میں ہم 
اب تو ممکن ہی نہیں عشق کا ریشم بننا
ایک وہ دن تھے جہاں دیکھنا چودہ کا چاند
شب بسر کرنا وہیں عشق کا ریشم بننا

ماں

تم دنیا دنیا کرتے ہو دنیا میں کچھ نہیں
کچھ ہے اگر تو ماؤں کے قدموں کی خاک ہے


سب لین دین والے ہیں سب روٹھ سکتے ہیں
بے لوث رشتہ ماں کا ہے جو روٹھتا نہیں


دنیا میں جتنی مائیں ہیں سب ایک سی لگیں
یہ بھی تو اک ثبوت ہے رب سب کا ایک ہے

سرحد کے آر پار


کابل ہو زاہدان ہو دلی کہ سنکیانگ
ہر سمت کلمہ گو ہیں تری جنگ کس سے ہے
اپنے ہی بھائی بندوں کو دشمن سمجھتا ہے
تیرے ہی جیسے وہ ہیں تری جنگ کس سے ہے

سرحد کے آر پار ہے مخلوق ایک سی

طالبان

طالبان

اقبال کے عقاب کو رستہ دو  آنے دو
دوقومی نظریے کی فتح عنقریب ہے
تم نے لکیر کھینچی تھی مذہب کے نام پر
کشمیر کی لڑائی بھی مذہب کے نام پر
مذہب کے ہی نظام سے اب ڈر رہے ہو کیوں
مذہب کے ہی نظام کو اک بار آنے دو

तालिबान

इक़बाल के अक़ाब को रस्ता दो  आने दो
दोकौमी नज़रीऐ की फ़तह अनक़रीब है
तुम ने लकीर खींची थी मज़हब के नाम पर
कश्मीर की लड़ाई भी मज़हब के नाम पर
मज़हब के ही निज़ाम से अब डर रहे हो क्यों
मज़हब के ही निज़ाम को इक बार आने दो

Thursday, February 20, 2014

ہیلے کالج کے پیارے طلبا کے لیے

ہیلے کالج کے پیارے طلبا کے لیے


نئے پرندے نئی اڑانیں، نئے افق اور نئی امیدیں
میں ایسی دنیا کو کیوں نہ چاہوں جو زندگی سے بھری پڑی ہے

تمہاری آنکھیں نہیں ہیں پیارو، چراغ جلتے ہیں پانیوں پر
تم ان کو یکجا تو کر کے دیکھو دو چار گز پہ سحر کھڑی ہے

Wednesday, February 19, 2014

یہ سرزمیں ہے اسے پاک کر رہیں ہیں ہم


قیام ِ ملک سے اب تک قتال جاری ہے
یہ سرزمیں ہے اسے پاک کر رہیں ہیں ہم

نفسا نفسی
مری گلی میں ہوا خون اور میں خوش ہوں
کہ رب نے جان بچا لی مرے عزیزوں کی

Monday, February 17, 2014

ہانک دو ان کو

چند افراد کے سوا سب لوگ
گھاس چرتے ہوئے مویشی ہیں
جس طرف چاہو ہانک دو ان کو

لمحہ موجود




الٹ پلٹ کے بہت دیکھی زندگی میں نے
سوائے لمحہِ موجود کچھ نہیں اس میں
سو جی سکو تو اسے جی لو آج اس پل میں!

Monday, February 10, 2014

خوف آتا ہے خود سے ملتے ہوئے

ذات کے بے امان جنگل میں
خواہشیں بے لگام پھرتی ہیں
خوف آتا ہے خود سے ملتے ہوئے

تا کہ

جان سے جان توڑ کر اپنی
مائیں بچوں کو پیدا کرتی ہیں
تا کہ آباد رب کی دنیا رہے

وہ اپنے آپ کو کیوں کر خدا نہ سمجھے گا
کہ جس کے رزق سے پلتی ہے بھوکی خلقِ خدا

رات پڑتی ہے تو سوجاتے ہیں ہمدرد سبھی

درد جس کا ہے اسی کا ہے فقط اس کا ہی ہے
رات پڑتی ہے تو سوجاتے ہیں ہمدرد سبھی

سرکاری اسپتال

راہ میں لیٹ گئے درد کے مارے ہوئے لوگ
جاگتے سوتے سے بے حال سے بے چارے لوگ
چوکیدار آئے گا
 اور چوب چھبو جائے گا
بڑہڑاتے ہوئے اٹھیں گے لپیٹیں گے لحاف
!!!! :سرد موسم میں عیادت بھی بہت مشکل ہے

چاہت نہیں چھپنے والی

ایسی خاموشی کہ دھڑکن کی دھمک پڑتی ہے
اور ابلاغ کہ آنکھوں کی  بھی آواز آئے
ایسے حالات میں چاہت نہیں چھپنے والی

ایسے لہراتا ہوا چلتا ہےوہ شاخ بدن
چاند دیکھے گا تو گر جائے گا چکر کھا کر
چاندنی رات میں اس کونہ جگانا لوگو

Sunday, February 2, 2014

بند باندھو تو جسم ٹوٹتا ہے

عمر تو وقت سے بندھی ہوئی ہے
جو مسلسل گزرتا جاتا ہے
زندگی قطرہ قطرہ ملتی ہے

ہفتوں کے بعد چار چھے لمحے
اور سالوں میں چند ہفتے بس
ٹکروں ٹکروں میں لوگ جیتے ہیں

جنس  مجبوری ہے ارے صاحب
بند باندھو تو جسم ٹوٹتا ہے

 شرم آتی ہے انہیں قوم بلاتے ہو جب
مادری بولی جنہیں بولتے شرم آتی ہے

خود ناپسندی


بدیسی ملک کا قانون وردیاں تھانے
بدیسی بولی بدیسی لباس اور کھانے
بدیسی حلیہ بدیسی دماغ اور سوچیں
بدیسی جو بھی ہو اچھا ہے بلکہ بہتر ہے
جو بس چلے تو یہ DNA  بھی بدل ڈالیں
کہ میری قوم کے لوگوں کو خود سے نفرت ہے