Sunday, March 30, 2014

دیکھتے دیکھتے گم ہو جائیں


جس کے گھر میں پرندے رہتے ہیں
اس کی اپنی کوئی نہیں اولاد
-------------

تم نے دیوار کھینچ لی یعنی
خود ہی محصور کر لیا خود کو
جس سے آزاد ہو رہے تھے تم
وہ تو اب بھی تمہارا آقا ہے

------------------------


استعمار نو

تجھے ذہنی غلام کرنے کے بعد
اس نے زنجیر کھول دی تیری

!!!!کون سا جشن کیسی آزادی
--------------------


اتنی بڑی ہیں آنکھیں اس کی
دیکھتے دیکھتے گم ہو جائیں


Thursday, March 27, 2014

آندھی چلی تو پیڑوں نے پتے گرا دیے

آندھی چلی تو پیڑوں نے پتے گرا دیے
رشتوں کو جانچنا ہو تو مشکل میں جانچیے

یہ کسی نوکری سے کم تو نہیں
جس قدر ضابظے ہیں زندگی کے

Wednesday, March 26, 2014

شاعری قافیے کی قید میں ہے


شاعرانہ خیال آوارہ
شاعری قافیے کی قید میں ہے
دیکھ کر بھی یقین نا ممکن
یہ نظر زاویے کی قید میں

ساری باتیں چپ پہ آ کر رکتی ہیں

بہت زیادہ بولنے والے چپ ہوجا
ساری باتیں چپ پہ آ کر رکتی ہیں

Tuesday, March 25, 2014

آج کل

تمہارا حسن بجا ہےپر آج کل اے دوست
مجھے معاشی مسائل نے باندھ رکھا ہے

Sunday, March 23, 2014

دو رخی


میں جسے آسمان سمجھا تھا
وہ ہی زیرِ زمین کا نکلا

پھول کاری کی شوخیوں میں دبا
آہ اک چاک ان سلا نکلا

Tuesday, March 18, 2014

یہ نو گیارہ !!!!

سوار کر کے ہزاروں کڑوڑوں لوگوں کو
وہ کہ رہا ہے کہ ٹکرا دوں گا زمیں سے زمیں
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو

تمہارے تیز جہازوں سے تیز تر ہے زمیں
پھر اس میں سینکڑوں کیا اربوں لوگ بیٹھے ہیں
بس ایک لمحے میں پھٹ جائے گی دھماکے سے
 بس ایک لمحے میں  ملبے کا ڈھیر ہو گا سب
بس ایک لمحے میں بجھ جائیں گی سبھی جانیں
کہ جیسے جوتا پٹخ کر چراغ گل کر دیں
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو

میں سوچتا ہوں  تو پڑتی ہیں کانوں میں چیخیں
کڑوڑوں عورتوں بچوں بزرگوں کی چیخیں
!!!!!!جنیوا پیکٹ بھی جن کو امان دیتا ہے
یہ نو گیارہ تو کچھ بھی نہیں مرے لوگو


خواہش

ایک کمرہ کہیں ہو تنہا سا
جس کی کھڑکی فلک پہ کھلتی ہو
چاند جس میں بسر کرے راتیں
دھوپ جس میں اجالے بھرتی ہو
اپسرا کوقاف سے جس میں
روز اک پھول لا کے رکھتی ہو
اور خاموشی دلفریب ایسی
دل کی دھڑکن بھی شور لگتی ہو
ایک کمرہ کہیں ہو تنہا سا
جس کی کھڑکی فلک پہ کھلتی ہو

زمیں سے توڑ کے رشتہ ترقیاں ڈھونڈے

زمیں سے توڑ کے رشتہ ترقیاں ڈھونڈے
  ہوا کے دوش پہ  ہلکورے کھاتی قوم مری

نہ جانے کس کے جزیرے پہ اب گرے تھک کر
ہر ایک قوم سے مرعوب ہوتی قوم مری

Sunday, March 9, 2014

ہم سا کوئی زمانے میں ناخلف ہی نہیں

دادا جی پہنا کرتے تھے تہبند اور پگ
ابّا نے انتخاب کی شلوار اور قمیص
اپنی کمان ٹوٹی ہے پتلون ٹائی پر

داد جی بولا کرتے تھے پنجابی مان سے
ابّا نے اختیار کی اردو میں بات چیت
ہم لوگ سر کھپائیں بدیسی زبان میں

اب کیسے کوئی مانے کہ ہم زندہ قوم ہیں
ہم سا کوئی زمانے میں ناخلف ہی نہیں

عورت ہے اک پہیلی اسے بوجھتے رہو

جو بھی لگا لے باتوں میں اس کا ہی دم بھرے
اس کا تو دیں دھرم نہ وطن مستقل رہے

عورت ہے اک پہیلی اسے بوجھتے رہو!!

محبت کا قرض


میں تیرے قرض کے اس بوجھ سے دبا جائوں
خدا کے واسطے اتنا نہ شرم سار کرو!!!!!!

Saturday, March 8, 2014

زندہ ہیں اور جینے کی فرصت نہیں ہمیں

چوبیس گھنٹے پیٹ کی مزدوریاں کی کریں
زندہ ہیں اور جینے کی فرصت نہیں ہمیں

Wednesday, March 5, 2014

جس قوم کے اساتذہ ترسیں گے روٹی کو

جس قوم کے اساتذہ ترسیں گے روٹی کو
اس قوم کے تلامذہ سیکھیں گے چوریاں

Tuesday, March 4, 2014

یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے

تمہاری کال آنی تھی
کہیں ملنا بھی طے تھا اور، ضروری بات کرنی تھی
، نہ تم نے کال  کی ہم کو 
نہ ہم نے یاد کروایا
یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے
شکایت تم کو ہم سے ہے،
نہ ہم کو تم سے شکوہ ہے-
یہ کیسا بے نیازاور خوبصورت رشتہ ہے
سبھی رشتے اگر ایسے  ہی ہوں
!!تو کیا ہی اچھا ہو

Monday, March 3, 2014

کچھ لوگ ہم سے آج بھی سرحد پہ بیٹھے ہیں

ملکوں نے ساٹھ سال کی مدت بھی کاٹ لی
کچھ لوگ ہم سے آج بھی سرحد پہ بیٹھے ہیں

احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی

احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی
سب سامعین دیسی مقرر بھی دیسی تھا
لیکن زبانِ غیر میں ابلاغ شرط تھا
پس کہنے والے قلتِ الفاظ کا شکار
اور سننے والے دقت و آزار سے دو چار
اللہ اللہ کر کے ہوا ختم سیمینار
احساس ِ کمتری تھا کہ وہ بیوقفی تھی؟؟


میں کیسے مان جاوں کہ ہم زندہ قوم ہیں
اپنی کوئی زباں نہ ثقافت نہ امتیاز

احساس ِ کمتری نے میر وقوم مار دی
نفرت سی ہو گئی ہے اسے اپنے آپ سے 

۱۴-۱۵ اگست ۱۹۴۷

اک بار پھر سے خون دو اک بار پھر لڑو
اب تک جو خوں بہایا وہ ضائع کیا گیا
اب تک جو خوں بہایا وہ اپنے ہی گھر کا تھا
اس کا ثبوت یہ ہے کہ حالت وہی رہی
انگریز کے غلام تھے انگریز کے ہی ہو
اک بار پھر سے خون دو اک بار پھر لڑو

ڈرپوک لوگ کتنے تھے برِّ صغیر کے

تلوار جس نے کھینچی اسی کو کیا  سلام
ڈرپوک لوگ کتنے تھے برِّ صغیر کے
ان کا دھرم بچا نہ زباں مستقل رہی
جتنے بھی غاصب آئے ملاوٹ کی اور گئے