Wednesday, June 30, 2010

محبت پھول رکھتی ہے چھپا کر کیوں کتابوں میں

محبت پھول رکھتی ہے چھپا کر کیوں کتابوں میں
یہ دنیا دیکھ لیتی ہے نقابوں میں حجابوں میں
 
کبھی تتلی کے پر نوچیں ، کبھی جگنو کی دم کاٹیں
جہاں میں حسن والوں کی تو کٹتی ہے عذابوں میں
 
بہت ہی ریتلی سی ہے ہنسی اس کی ملائم سی
میں بہتا ہی چلا جائوں سوالوں میں جوابوں میں
 
طلوع ہوتا ہے وہ چہرہ مری راتوں کی خلوت میں
کہ جیسے نرم بارش ہو اجالوں کی گلابوں میں
 
ہمیں معلوم ہی کب تھا کہ دل تجھ کو بھی چاہے گا
تجھے تو ہم نے رکھا تھا خیالوں میں نہ خوابوں میں
 
محبت جسم جب ٹھہری توکیا دے گا دلیلیں پھر
یہ جذبہ آسمانی تھا کبھی تیرے نصابوں میں

Monday, June 28, 2010

اے گلابِ من

اے گلابِ جاں ، اے گلابِ من
مری بات سن، مری بات سن
تجھے توڑ لوں یہ کہا نہ کر
مرے ساتھ ساتھ رہا نہ کر
مرے ہاتھ چھلنی ہیں اس قدر
تجھے توڑنے کی سکت نہیں
یہ لہو لہو سا بدن مرا
کوئی زندگی کی رمق نہیں
مرے ہم نوا مرے دل جگر
بڑی دیر بعد ملا ہے تو
ترے آنے سے ذارا پیشتر
کوئی خار مجھ میں چبھو گیا
کوئی موت مجھ میں سمو گیا


ابھی یہ عشق کم سن ہے

ابھی یہ عشق کم سن ہے
ابھی اظہار مت کرنا
جنوں کی آگ بڑھنے دو
ابھی کچھ روز جلنے دو
اگر یہ راکھ کر ڈالے
سمجھ لینا کہ ناقص ہے
 سمندر میں بہا آنا
اگر کندن بنا ڈالے
سمجھ لینا کہ خالص ہے
بہت نایاب گوہر ہے
اسے بیکار مت کرنا
کسی کم ظرف کے آگے
کبھی اظہار مت کرنا








Saturday, June 26, 2010

گھٹن

بھا گ کرآگئے
اپنا گھر چھوڑ کر
آشیاں ہی اگر
لگ رہا ہو قفس
آشیاں پھونک دو
بے اماں شہر کا
ہر مکاں پھونک دو


مرے یارا یہ عشق اپنا خدا سا تھا خدا سا ہے

سنا ہے اور نہ دیکھا ہے نہ سوچا اور نہ سمجھا ہے
مرے یارا  یہ عشق اپنا  خدا سا تھا خدا سا ہے

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا

وفا مجبوری بن جائے تو رشتوں کا نبھانا کیا
یہ دل ہی روٹھ جائے جب تو دلبر کا منانا کیا

تری دنیا کی شرطوں نے جوانی باندھ کے رکھ دی
پڑی ہو پائوں میں بیڑی تو منزل کا بلانا کیا

چمن میں ایک ہی گل تھا کہ میرے نام پر کھلتا
مگر یہ دھوپ  دنیا کی کہ کھلنا اور کھلانا کیا
 
یہ عادت ہے بری اپنی کبھی مایوس نہ ہونا
وگرنہ خشک پتھر پر گلابوں کو اگانا کیا
 
تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ تم کو کتنا چاہا ہے
یہ باتیں دل کی باتیں ہیں سنانا کیا جتانا کیا
 
ہمیں تسلیم ہے لوگو ، محبت جان لیوا ہے
مگر ہم بےٹھکانوں کا بغیر اس کےٹھکانہ کیا

Thursday, June 24, 2010

جتنے مرضی پائوں پسارو

جتنے مرضی
پائوں پسارو
وقت رکا ہے
نہ ہی رکے گا
ریت کی مانند
عمر کا توشہ
ہاتھ سے اپنے
گرتا رہا ہے
گرتا رہے گا
آنکھ کا تارہ
جان سے پیارہ
یار ہمارا
لوٹ کے پھر سے
آ نہ سکے گا

Monday, June 21, 2010

وقت دریا کی طرح ہم کو بہاتا جائے

دکھ زمانے کا تری یاد مٹاتا جائے
وقت دریا کی طرح ہم کو بہاتا جائے

ذہن اور جسم تو دنیا سے بندھے ہیں یارا
ایک دل ہے جو ترا عشق نبھاتا جائے

تیری آنکھوں کے دیے خواب بنے ہیں جب سے
تیرا دیوانہ اندھیروں کو گراتا جائے

تیری آنکھوں  میں کوئی عذر حیا کا ہی سہی
سرد لہجہ تو تجسس کو بڑھاتا جائے

حال تیرا بھی مرے حال سے ملتا ہے اب
وقت تجھ کو بھی زمانے سا بناتا جائے


یہاں خوابوں پہ مت رہنا

یہاں جینے کے سب رستے
یونہی الجھے سے ملتے ہیں
جو ہمت ہو تو جی لینا
یہاں خوابوں پہ مت رہنا
کہ خوابوں کے سبھی منظر
فقط خوابوں میں ملتے ہیں

مجھے خوابوں میں رہنے دو

مجھے خوابوں میں رہنے دو
مجھے تعبیر مت دینا
کہ تعبیروں کے کاسے میں
ندامت کے سوا کیا ہے
مرے خوابوں کی دنیا میں
مری مرضی تو چلتی ہے
مجھے مرضی میں جینے دو
مجھے تقدیر مت دینا
مجھے تعبیر مت دینا

Friday, June 18, 2010

کہ گھٹن بڑھنے لگی تو گھر سے باہر آگئے

خاک کے کیڑے مکوڑے خاک اوپر آگئے
کہ گھٹن بڑھنے لگی تو گھر سے باہر آگئے

بے اماں سے لوگ تھے ہم، منزلوں کی بات کیا
گھر سے نکلے چلتے چلتے آپ کے گھر آگئے

کیا خبر تھی روشنی کا آگ سے رشتہ بھی ہے
سر پھرے سے کچھ پتنگے شمع اوپر آگئے

جب بھی ساقی نے پکارا عذرِ مجبوری رہا
آخرِ شب ٹوٹا پیالہ خالی لے کر آگئے

جس کی بنیادوں میں رکھے خواب ساری عمر کے
اس مکاں کے اینٹ پتھر میرے سر پر آگئے

ہم دوا کرتے گئے اور درد بڑھتا ہی گیا
جب نہ کچھ بھی ہو سکا تو جان دے کر آگئے

Saturday, June 12, 2010

لوگ گرتے ہیں کیسے دولت پر

لوگ گرتے ہیں کیسے دولت پر
ایک سکہ اچھال کر دیکھو

درد کی باقیات کا نام

درد کی باقیات کا نام
لوگ تخلیق رکھ دیتے ہیں
جان سے جان ٹوٹتی تو ہم نے دیکھی ہے

Tuesday, June 8, 2010

محبت مرنے لگتی ہے

عاشقوں کی بستی میں
کچھ کم سخن بھی ہوتے ہیں
عمر بھر محبت کا سبق یاد کرتے
لیکن عین موقع پر
کچھ بھی کہ نہیں سکتے
سال گزرتے جاتے ہیں
رنگ اترتے جاتے ہیں
اور یہ لوگ گم صم سے
ان ڈور پلانٹس کی طرح
جب بھی سر اٹھاتے ہیں
کم ظرف سماج کی آری چلنے لگتی ہے
محبت مرنے لگتی ہے

Monday, June 7, 2010

تم نے بھی مر ا غور سے چہرہ نہیں دیکھا

تم نے بھی مر ا غور سے چہرہ نہیں دیکھا
باتیں تو سنی ہیں کبھی لہجہ نہیں دیکھا

اس دشتِ محبت میں سزا ہو کہ جزا ہو
اس دشت کا زائر کبھی ٹھہرا نہیں دیکھا

ایمان سمجھتے ہو محبت میں وفا کو
لگتا ہے ابھی تم نے زمانہ نہیں دیکھا

اک رات کوئی چاند مری آنکھ میں اترا
پھر عمر کٹی یوں کہ سویرا نہیں دیکھا

دامن میں بھری آگ تو دل کیوں نہ جلے گا
صدیوں سے کوئی معجزہ ہوتا نہیں دیکھا

اس محبت میں سبھی آبلہ پا دیکھے ہیں

کبھی قسمت سے کبھی خود سےخفا دیکھے ہیں
اس محبت میں سبھی آبلہ پا دیکھے ہیں

درد آیا ہے تو کچھ روز ٹھہر جانے دے
آنکھ نے پہلی دفعہ داغِ وفا دیکھے ہیں

Saturday, June 5, 2010

یہ محبت تھی دوریوں کے سبب

سوچ تیری زباں مری ہو گی
اب محبت میں خود کشی ہو گی

یہ محبت تھی دوریوں کے سبب
پاس آئے تو بحث ہی ہو گی

خوش رہوں گا تو چپ رہوں گا میں
دل جلے گا تو شاعری ہو گی

روشنی کی لکیر دیکھی ہے
ہچکی شمع کی آخری ہو گی

درد کندن بنا گیا اب کے
اب تو قسمت بھی سوچتی ہو گی

کوئی آئے مجھے کتاب کرے

ذات میری کتاب تھی کوئی
رنگ برنگی کہانیوں والی
کچھ محبت کے خواب رکھے تھے
کچھ خیالوں کے چاند بستے تھے
بہت بکتی تھی بازاروں میں
میرا محبوب حسد کر بیٹھا
پرزہ پرزہ اڑا گیا مجھ کو
لفظ سارے ہی چھِل گئے تن سے
کورا کاغذ بنا گیا مجھ کو
میری آنکھوں میں پھر سے خواب بھرے
کوئی آئے مجھے کتاب کرے

Friday, June 4, 2010

جاتے جاتے دل بے کار کا سودا کر دوں

سوچتا ہو ں کہ اب اظہار تمنا کر دوں
جاتے جاتے دل بے کار کا سودا کر دوں

ہے محبت تو زمانے کی روایت کیسی
توڑ کر ساری حدیں راز کو افشا کر دوں

ضد یہ تیری کہ تجھے چاہوں فقط یادوں میں
شوق میرا کہ ترے نام کا چرچا کر دوں

ایک پل کے لیےتم نے جو مجھےچاہا تھا
عمر ساری اسی اک پل پہ ہی صدقہ کر دوں

حسن نکھرا کہ مری آنکھ جمالی ہوئی
دل یہ کہتا ہے کہ تصویر وہ چہرہ کر دوں

ملاتو ہے سوال اور کا تھا

بات تیری خیال اور کا تھا
ملاتو ہے سوال اور کا تھا

تجھے چاہا بہت مگر ایسے
شکل تیری جمال اور کا تھا

عمر ساری ترے ہی نام مگر
تو ملا جب وہ سال اور کا تھا

وصل کی شب یہ سانحہ تھاعجیب
جسم تیرا وصال اور کا تھا

تم تو رستے میں مل گئے یوں ہی
دل کی منزل جمال اور کا تھا

Thursday, June 3, 2010

نکل کر تیرے کوچے سے کدھر کا رخ کریں بابا

نکل کر تیرے کوچے سے کدھر کا رخ کریں بابا
ترے طعنے ہی ملتے ہیں جدھر کا رخ کریں بابا

درد کے ساتھ دوا بھی دے گا

درد دے گا تو دوا بھی دے گا
زخم کے ساتھ ہوا بھی دے گا

ہجر میں درد سے ڈرتے کیوں ہے
رفتہ رفتہ یہ مزہ بھی دے گا

عشق میں وصل گناہوں جیسا
وصل دے گا تو سزا بھی دے گا

تیری آنکھوں میں ڈبونے والا
دل کے رستے کا پتہ بھی دے گا

مسکرا کر ترا ملنا مجھ سے
اچھا لگتا ہے دغا بھی دے گا

عشق اور وہ بھی بڑھاپے کا ریحاں
لطف دے گا تو جلا بھی دے گا

Wednesday, June 2, 2010

جانےکب تک ستائے گی دنیا


پھر محبت نے پکارا ہے مجھے
ایک دیوار کے پیچھے سے
ایک دیوار کہ جس کہ اندر
کوئی دروازہ ہے کھڑکی ہے نہ روشنداں
جانےکب تک ستائے گی دنیا

ہماری قسمتوں کےبننے میں بس ایک خامی ہے

ہماری قسمتوں کےبننے میں بس ایک خامی ہے
کبھی بھی یہ ہمارے دل کی مرضی سے نہیں بنتیں

Tuesday, June 1, 2010

خواب جینے کا سہارا تھے مگر تیرے بغیر

ایسا لگتا ہے مقدر نہیں ہرنے والا
مر بھی جائوں تو وہ میرا نہیں بننے والا

ایک بھی سانس گوارا نہ تھی جس کو تم بن
کیسے اجڑا ہے وہ دل پیار میں بسنے والا

خواب جینے کا سہارا تھے مگر تیرے بغیر
آنکھ کا نیند سے رشتہ نہیں جڑنے والا

بے دلی سے دم رخصت یوں ملائیں نظریں
جیسے سب چھوڑ گیا پاس سے اٹھنے والا

ہاں مگر سوچ ہماری پہ تو حق ہے اپنا
سوچ میں قید ہے اب چھوڑ کے جانے والا

اول اول تو وہ کرتا تھا شکایت میری

اول اول تو وہ کرتا تھا شکایت میری
اب مری بات پہ موضوع ہی بدل جاتا ہے