خاک کے کیڑے مکوڑے خاک اوپر آگئے
کہ گھٹن بڑھنے لگی تو گھر سے باہر آگئے
بے اماں سے لوگ تھے ہم، منزلوں کی بات کیا
گھر سے نکلے چلتے چلتے آپ کے گھر آگئے
کیا خبر تھی روشنی کا آگ سے رشتہ بھی ہے
سر پھرے سے کچھ پتنگے شمع اوپر آگئے
جب بھی ساقی نے پکارا عذرِ مجبوری رہا
آخرِ شب ٹوٹا پیالہ خالی لے کر آگئے
جس کی بنیادوں میں رکھے خواب ساری عمر کے
اس مکاں کے اینٹ پتھر میرے سر پر آگئے
ہم دوا کرتے گئے اور درد بڑھتا ہی گیا
جب نہ کچھ بھی ہو سکا تو جان دے کر آگئے
No comments:
Post a Comment