درد دے گا تو دوا بھی دے گا
زخم کے ساتھ ہوا بھی دے گا
زخم کے ساتھ ہوا بھی دے گا
ہجر میں درد سے ڈرتے کیوں ہے
رفتہ رفتہ یہ مزہ بھی دے گا
عشق میں وصل گناہوں جیسا
وصل دے گا تو سزا بھی دے گا
تیری آنکھوں میں ڈبونے والا
دل کے رستے کا پتہ بھی دے گا
مسکرا کر ترا ملنا مجھ سے
اچھا لگتا ہے دغا بھی دے گا
عشق اور وہ بھی بڑھاپے کا ریحاں
لطف دے گا تو جلا بھی دے گا
No comments:
Post a Comment