Thursday, June 3, 2010

درد کے ساتھ دوا بھی دے گا

درد دے گا تو دوا بھی دے گا
زخم کے ساتھ ہوا بھی دے گا

ہجر میں درد سے ڈرتے کیوں ہے
رفتہ رفتہ یہ مزہ بھی دے گا

عشق میں وصل گناہوں جیسا
وصل دے گا تو سزا بھی دے گا

تیری آنکھوں میں ڈبونے والا
دل کے رستے کا پتہ بھی دے گا

مسکرا کر ترا ملنا مجھ سے
اچھا لگتا ہے دغا بھی دے گا

عشق اور وہ بھی بڑھاپے کا ریحاں
لطف دے گا تو جلا بھی دے گا

No comments:

Post a Comment