سوچتا ہو ں کہ اب اظہار تمنا کر دوں
جاتے جاتے دل بے کار کا سودا کر دوں
ہے محبت تو زمانے کی روایت کیسی
توڑ کر ساری حدیں راز کو افشا کر دوں
ضد یہ تیری کہ تجھے چاہوں فقط یادوں میں
شوق میرا کہ ترے نام کا چرچا کر دوں
ایک پل کے لیےتم نے جو مجھےچاہا تھا
عمر ساری اسی اک پل پہ ہی صدقہ کر دوں
حسن نکھرا کہ مری آنکھ جمالی ہوئی
دل یہ کہتا ہے کہ تصویر وہ چہرہ کر دوں
No comments:
Post a Comment