Friday, May 31, 2013

میں آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے

میں آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر میں کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی

Thursday, May 30, 2013

رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

کڑکتی دھوپ ہے پیڑوں کی چھائوں سے لپٹی
جنم جنم سے ہے تکلیف مائوں سے لپٹی

دل آسماں کے ستارے پکڑنا چاہتا ہے
مگر یہ کیا کرے دنیا ہے پائوں سے لپٹی

میں شہر آ تو گیا ہوں یہیں مروں گا بھی
رہے گی روح ہمیشہ ہی گائوں سے لپٹی

ہم اہلِ علم ہیں لفظوں سے راستہ پوچھیں
رہیں گی منزلیں مجنوں کے پائوں سے لپٹی

ڈرے ڈرے مرے سب لوگ غیر کے ہیں اسیر
کہ جیسے گرد ہو کوئی ہوائوں سے لپٹی


ہماری پہلی محبت تھی بے مزہ اتنی

ہماری پہلی محبت تھی بے مزہ اتنی
کہ اس کے بعد کسی سے بھی دل لگا نہ سکے
تمہارے بعد محبت نے کھینچا تانی تو کی
تمہارے بعد محبت کے ہاتھ آ نہ سکے
شباب اور جوانی بہار اور ساون
قفس کے سامنے آئے قفس میں آ نہ سکے

Monday, May 20, 2013

بہار ہو کہ خزاں ہو اداس رہنا ہے

قفس میں قید پرندے سے پوچھتے کیا ہو؟
بہار ہو کہ خزاں ہو اداس رہنا ہے

آخری بار ملا تھا وہ یوں

جوان جذبے سلامت رہیں کہ ان کے طفیل
غمِ زمانہ بھی اب سازگار لگتا ہے


ایزدی خواب کی تعبیر میں گزری ہے حیات

یعنی خواہش مری در اصل مری تھی ہی نہیں

ہم وہ کردار اضافی ہیں کسی کھیل میں جو
یونہی آجاتے ہیں منظر کے پسِ منظر میں


آخری بار ملا تھا وہ یوں
جیسے سب عیب مرء جانتا ہو

آس بے وجہ سہی کوششِ ناکام سہی

آس بے وجہ سہی کوششِ ناکام سہی
جب تلک زندہ ہیں مصروف تو رہنا ہو گا

Thursday, May 16, 2013

ہے چار لقموں کی دوری یہ بھوک کچھ بھی نہیں

ہے چار لقموں کی دوری یہ بھوک کچھ بھی نہیں
مگر غریب سے پوچھو جو ساری عمر چلے

Wednesday, May 15, 2013

یہ وقت کہتے ہیں جس کو، کوئی سمندر ہے

یہ وقت کہتے ہیں جس کو، کوئی سمندر ہے
کوئی کنارہ ہے جس کا نہ کوئی پیندہ ہے
سطح پہ تیرتے رہتے ہیں جب تلک دم ہو
قضا جب آتی ہے چپکے سے ڈوب جاتے ہیں

بھلا یہ وقت مرے ساتھ کیوں نہیں چلتا؟

ذرا سا تیز چلوں، ہانپتا پکارتا ہے
ذرا سا سست جو ہوں چھوڑ کر چلا جائے
بھلا یہ وقت مرے ساتھ کیوں نہیں چلتا؟

Tuesday, May 14, 2013

کہ کاش وقت کا گھوڑا نکیل دیتا مجھے


کئی دفعہ یہ خیال آیا دل میں شدت سے
کہ کاش وقت کا گھوڑا نکیل دیتا مجھے
کچھ ایسے پل تھے کہ سالوں ٹھہرنا تھا جن میں
کچھ ایسے سال تھے جو بائی پاس کرنے تھے

Saturday, May 4, 2013

خواب خواہش کے لبادے میں اگر آئے گا

خواب خواہش کے لبادے میں اگر آئے گا
آنکھ کے ساتھ ترا جسم بھی زخمائے گا

بیڑیاں پائوں میں اور طوق گلے میں کس کے
یار کے کوچے کبھی دار پہ کھنچوائے گا

پائوں پڑنا نہ کبھی اور نہ منت کرنا
جس نے جانا ہے بہر طور چلا جائے گا


وہ اگر جان گیا کچھ نہیں دامن میں ترے
سر کو نیچا کیے چپ چاپ بچھڑ جائے

پودا چاہت کا بھی ہر وقت نمی مانگتا ہے
پانی کم دو گے تو کچھ روز میں مرجھائے گا

زندگی جو بھی ترے ساتھ چلے گا دل سے
آخرِ کار وہ ہر حال میں پچھتائے گا

اکیسویں صدی کا روبوٹ

 ایک جنگل ہے مشینوں کا جہاں تک  دیکھوں
اور میں بھولا ہوا بھٹکا ہوا پھرتا ہوں
صنعتی دور کا انسان ہوں روبوٹ ہوں میں
-----------------------------------

کمپیوٹر کی ہی سکرین میں سمٹی ہے حیات
ہاتھ سے باندھی گھڑی سے ہی بندھے ہیں اوقات
میں نے دیکھی ہی نہیں شام کبھی اور نہ رات!!
-------------------------------------

میں تھا خائف بڑا فطرت کے حوادث سے کبھی
موسم اور قدرتی آفات پہ اب قابو ہے
لیکن اس فتح میں خوابوں کو بہت خون ہوا
---------------------------------------

مجھ کو فطرت نے کیا ملک بدر کچھ ایسے
چاندنی رات سے انسانوں سے اور پھولوں سے
اب ملاقات کی تاعمر کوئی آس نہیں
---------------------------------------

ایک بے روح سے ڈھانچے کی ہے نسبت مجھ سے
جس میں احساس ہے جینے کا نہ مرنے کا اب
شکل انسانوں سے ملتی ہے، حقیقت یوں ہے
فیکٹری کے کسی انجن کا ہی اک پرزہ ہوں


Thursday, May 2, 2013

چلے جہاں سے تھے اب بھی وہیں پہ ہیں شاید


جہانِ عشق و وفا آدمی کے بس کا نہیں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا ہے زندگی کا جسے
خدا ہمیشہ رہا ہے ہمیشہ ہی ہو گا
سو اس کے ساتھ تعلق بنانا چاہیے تھا
مگر یہ راستہ مشکل تھا اور ہم سیدھے
بھلا یہ کس طرح ممکن تھا سرخرو ہوتے؟
قدم قدم پہ گماں اور بے یقینی تھی
طرح طرح کے مذاہب تھے راہ میں حائل
تمام عمر کسی دائرے میں چلتے رہے
چلے جہاں سے تھے اب بھی وہیں پہ ہیں شاید

مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی

ابل رہی ہیں کہیں آنکھیں ، اس میں حیرت کیا
بچھڑ گیا ہوگا کوئی بدل گیا ہو گا

زمین زادے بھلا کیا نبھائیں گے رشتے
ہر ایک سانس پہ سوچیں جو فائدہ اپنا

چٹخ گیا ہے کوئی آئینہ تو کیا غم ہے
کسی نے سچ ہی کہا "دل کا استعارہ ہے

وہ بد دعائیں مجھے رہا ہے اور میں چپ
یہ سوچتا ہوں کہ دنیا سا ہو گیا وہ بھی

تیرے شکووں کا مرے پاس نہیں کوئی جواب
اس قدر اجنبی لہجے میں تکلم کیا ہو؟
مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی