Thursday, May 2, 2013

مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی

ابل رہی ہیں کہیں آنکھیں ، اس میں حیرت کیا
بچھڑ گیا ہوگا کوئی بدل گیا ہو گا

زمین زادے بھلا کیا نبھائیں گے رشتے
ہر ایک سانس پہ سوچیں جو فائدہ اپنا

چٹخ گیا ہے کوئی آئینہ تو کیا غم ہے
کسی نے سچ ہی کہا "دل کا استعارہ ہے

وہ بد دعائیں مجھے رہا ہے اور میں چپ
یہ سوچتا ہوں کہ دنیا سا ہو گیا وہ بھی

تیرے شکووں کا مرے پاس نہیں کوئی جواب
اس قدر اجنبی لہجے میں تکلم کیا ہو؟
مجھے عادت ہی نہیں ہے تری ناراضگی کی

No comments:

Post a Comment