Monday, July 30, 2012

کچھ نہیں ہے سرِ ساحل ، اب ذرا خاک پہ آ

چھوڑدے تاروں کی محفل،  ذرا اب خاک پہ آ
موڑ لا بھٹکا ہوا دل،  ذرا اب خاک پہ آ
ہائے افسوس کہ پھر سے وہی پتھر ہے خدا
پھر وہی سر، وہی قاتل ،  ذرا اب خاک پہ آ
خواب زاروں میں پری وش بھی تھے مہ رو بھی تھے
کھل گئی آنکھ مرے دل ،  ذرا اب خاک پہ آ
حسرت و یاس کی موجوں نے تجھے پھینک دیا
کچھ نہیں ہے سرِ ساحل ،  ذرا اب خاک پہ آ

Sunday, July 29, 2012

طنزیہ تک بندی


ربّا مرے لوگوں کو، اب دیدہ ِ بینا دے
اس بار الیکشن میں، کچھ کام کا بندہ دے

کیوں شاکی ہے قسمت کا ، کیوں کوسے بھلا خود کو؟
بگڑے ہوئے بیٹے کو شادی کا طمانچہ دے

رحمان ملک جیسے بیکار نہیں ہوتے
دو سینگ لگا سر پر، سرکس کا تماشا دے

زرداری کے چالے ہیں، دستی ہو کہ راجہ ہو
اس ہاتھ نکما لے، اس ہاتھ نکما دے

اس قوم کے کھوپڑ میں، کچھ بھی نہیں بھوسا ہے
گیلانی کو گھر بھیجو، گیلانی کا بیٹا دے

اینکر بھی ہے سرکاری، ٹی وی بھی ہے سرکاری
اک ڈگڈگی والا ہے، بندر کا تماشا دے

سحری میں بھی پیتا ہے، روزے میں بھی پیتا ہے
مدہوشی کا عالم ہے، کیا رائے "چراہا" دے

Saturday, July 28, 2012

ہر بار آئینے میں نیا اجنبی ملے

میں ذہر پی کے آیا ہوں چاہت کے جام سے
کل رات سے وجود میں ایک آگ سی جلے

ایسے الٹ پلٹ ہیں مری ذات کی تہیں
ہر بار آئینے میں نیا اجنبی ملے

خود کو میں بانٹتا پھروں صدقے کے مال سا
کوئی قبول کر لے تو کوئی جھٹک بھی دے

میری محبتیں بھی مرے دین کی طرح
فرقوں میں بٹ گئی ہیں خدارا سمیٹ لے

گڈ مڈ سا ہو گیا ہے نظامِ وفا و عشق
دل میں کوئی بسے ہے تو گھر میں کوئی بسے!

Friday, July 27, 2012

لب ہیں خاموش کہ گستاخی نہ ہوجائے کہیں

ایک تو پوچھے بنا پھینک دیا دنیا میں
دوسرا خود کو بنا رکھا ہے گورکھ دھندا
اتنے فرقے ہیں کہ گنتی میں نہیں آسکتے
کون سے دین کو حق سمجھے یہ تیرا بندہ

اندھی تقلید ہے ایمان کی شرط اول
آنکھیں کرتی ہیں سولات کدھر جائیں ہم
لب ہیں خاموش کہ گستاخی نہ ہوجائے کہیں
خوف ہی خوف کے عالم میں نہ مر جائیں ہم

Wednesday, July 25, 2012

سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

تجھ کو تو یہ گلہ ہے کہ تیرا نہیں رہا
چھو کر کبھی توْ دیکھ کہ میں تھا نہیں رہا

دیکھوں تو چار سمت ہے حلقہِ دوستاں
سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

ہر شخص ڈھونڈتا ہے فقط آئینہ یہاں
میں آشکار کیا ہوا اس کا نہیں رہا

دل کی تو تھپکیاں تھیں محبت بڑھانے تک
اب مسئلہ ہمارا ہے دل کا نہیں رہا

مجھ کو تلاشِ یزداں کی ضد تھی جنون تھا
اتنا بھٹک گیا کہ کہیں کا نہیں رہا

راہِ سلوک ملتی نہیں عقل کے طفیل
حجت میں پڑ گئے تو عقیدہ نہیں رہا


Monday, July 23, 2012

نگاہیں رستے سے ہٹتیں تو چار بھی ہوتیں

وہ ساتھ ساتھ چلا زندگی کے ہر پل میں
مگر نصیب تو دیکھو، کہ جانتا بھی نہیں
نگاہیں رستے سے ہٹتیں تو چار بھی ہوتیں
سفر کی دھن میں یوں ہی منزلیں گنوا آئے

مگر یہ طے ہے کہ یہ عشق آخری ہوگا

سمیٹ لے گا وہ مجھ کو، یہ جانتا تو نہیں
مگر یہ طے ہے کہ یہ عشق آخری ہوگا

ایسی تنہائی کی عادت ہے

ایسی تنہائی کی عادت ہے کہ اب صحبت یار
شب فرقت کی طرح بوجھ بنی ہے دل پر

جو بھی ملتا ہے ہمیشہ کے لیے ملتا ہے
دل وہ ہرجائی کے بس تازہ محبت چاہے

تیری ذلت بھی ترے ساتھ ہی مر جائے گی

آج ہوئی ہے جو ذلت تو کوئی بات نہیں
آج کا دن بھی گزر جائے گا جیسے تیسے
کچھ ہی برسوں میں سبھی قصہِ ماضی ہوگا
تیری ذلت بھی ترے ساتھ ہی مر جائے گی

یہ ایک ان کہی خود میں بھی جانتا نہیں تھا

میں تنگ آگیا جب اس کے عشق سے اک دن
تو جا کے کہہ دیا "تم سے مجھے محبت ہے"

مجھے خبر تھی یہ اظہار قاتلِ دل ہے
اسی لیے کہا "تم سے مجھے محبت ہے

یہ ایک ان کہی خود میں بھی جانتا نہیں تھا
کہیں سے سن لیا "تم سے مجھے محبت ہے"

یہ بات اب کی نہیں سو براس پرانی ہے
بس آج کہ دیا"تم سے مجھے محبت ہے

Saturday, July 21, 2012

تک بندی "بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے"

انحراف فورم کے 20 جولائ 2012 کے فی البدیہہ طرحی
مشاعرے کے لئے کہی ہوئی میری غزل

اب عشق میں وہ پہلے سے جھگڑے نہیں رہے
کیوں کہ نباہے جانے کے وعدے نہیں رہے

بےزار ہوگئے ہیں محبت کے خواب سے
کیا کیجیے کہ دل پہ بھروسے نہیں رہے

زلت مآب ہو گئے عزت مآب سے
جب سے سخن میں جھوٹ کے پردے نہیں رہے

اس درجہ بے قراری سے مت کھوجیے ہمیں
بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے

رو روہ کے مانگنے سے بھلا کوئی کب ملا
ویسے بھی مانگنے کے زمانے نہیں رہے

قول و قرار سچ ہیں ہیں ترے اشک بھی بجا
لیکن محبتوں کے یہ کلیے نہیں رہے

تیرے خلوص کا ہے یقیں سانس کی طرح
ہے المیہ کہ اب ہمی سچے نہیں رہے

Monday, July 16, 2012

وصال کچھ نہیں جھگڑا ہے زندگی بھر کا

محبتوں کے مراسم میں دوریا ہی بھلی
وصال کچھ نہیں جھگڑا ہے زندگی بھر کا

Friday, July 13, 2012

تک بندی "میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا"



جسموں کے گناہوں کی وکالت نہیں کرتا
میں عشق میں لفظوں کی تجارت نہیں کرتا

اب صاف کہے دیتا ہوں خواہش کا فسانہ
اب عشق کے جذبوں میں خیانت نہیں کرتا

اب جان گیا عشق کا میں مر کزی نکتہ
اب عرض تمنا میں طوالت نہیں کرتا

بس وصل کی چاہت ہے محبت تری کیا ہے
میں ایسی محبت کی حمایت نہیں کرتا

جو حسن کو ٹھہرائے محبت کا کلیسا
میں ایسی شریعت کی اطاعت نہیں کرتا

کچھ لغزشیں ہوتی ہیں خودآپ اپنی نصیحت
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

ہر ربط کے پیچھے ہے ہوس اور ضرورت
دنیا میں کوئی شخص محبت نہیں کرتا

Monday, July 9, 2012

زندگی اور میں


شرط جینے کی لگائی تھی کبھی زندگی سے
بس اڑا بیٹھا ہوں اس ضد پہ جیے جاتا ہوں
ورنہ دونوں بڑی مشکل میں ہیں اک مدت سے
سانسیں سینے کا بھرم رکھتی ہیں آجاتی ہیں
اپنی عادت سے ہے مجبور دھڑکتا رہے دل
زندگی اور طرف جاتی ہے میں اور طرف
ایک دوجے کو گھسیٹے ہیں کبھی میں کبھی وہ

Sunday, July 8, 2012

اب تو زندہ ہوں فقط نام لگا کر اپنا

تو اب آئی ہے نئے خواب اٹھا کر اے دوست
اب وہ میں ہوں نہ وہ آنکھیں نہ وہ نیندوں کا خمار
اب مری شکل پہ کتبہ ہے کسی اجنبی کا
------------------------------------
میری سانسیں بھی کسی اور کے سینے میں ہیں
میری آنکھوں کی بصارت بھی نہیں ہے میری
اب تو زندہ ہوں فقط نام لگا کر اپنا
--------------------------------------
کوئی آسیب سا لگتا ہے محبت کا خیال
حسن بھی آنکھ کی خواہش کے مطابق نہ ملے
اور سوچوں پہ بھی پہرہ ہے روایات کا اب
بس تضادات کا جنگل سا ہے اب ذات مری
-----------------------------------
تو سمجھتی ہے میں کہقاف کا شہزادہ ہوں
تو نے چاہا ہے مرے اصل سے ہٹ کر مجھ کو
تو مری ذات میں جھانکے گی تو ڈر جائے گا

Saturday, July 7, 2012

تک بندی




ٹوٹ کر بھی فنا نہیں ہوتے
سو قفس سے رہا نہیں ہوتے

ہائے ہم کیا سے کیا نہیں ہوتے
لیکن اس سے جدا نہیں ہوتے

وصل زنجیرِ پا بھی ہوتے ہیں
ہجر زنجیرِ پا نہیں ہوتے

وہ جو آنکھیں ہمیں بہت ہیں پسند
انہی آنکھوں پہ وا نہیں ہوتے

دل کی مرضی جدھر کو لے جائے
ہم تو قصدا جدا نہیں ہوتے

دل وہیں جا کے سر رگڑتا ہے
در جو دستک پہ وا نہیں ہوتے

بے وفائی کی معذرت کے اب
ہم سے وعدے وفا نہیں ہوتے

انگلیوں پر جنہیں شمار کریں
وہ وظیفے دعا نہیں ہوتے

کوئی بت ہو نہ ہو خدا جن میں
ایسے دل دیرپا نہیں ہوتے

ہار ہم بے یقین لوگوں کے
سر تو ہوتے ہیں پا نہیں ہوتے


=========================================
دل ہے رہگزار یاروں کی
رہگزاروں میں گھر نہیں ہوتے



Wednesday, July 4, 2012

پیار دو طرفہ تماشا ہے مرے یار سمجھ

اب کسی عشق و وفا کا کوئی دعوی ہی نہیں
دل وہ بزدل ہے کہیں پائوں جماتا ہی نہیں


ایسے تقسیم کیا ہے مرے رشتوں نے مجھے
کہ اب  آئینہ مری شکل دکھاتا ہی نہیں

سارے کردار ہیں دنیا کے سبھی  منظر ہیں
اپنے افسانے میں اک نام ہمارا ہی نہیں

پیار دو طرفہ تماشا ہے مرے یار سمجھ
یہ وہ ڈھولک ہے   جو اک سمت سے بجتا ہی نہیں

کچھ ہوس عشق میں لازم ہے وگرنہ یہ دل
وصل اور ہجر کی تفریق سمجھتا ہی نہیں