تو اب آئی ہے نئے خواب اٹھا کر اے دوست
اب وہ میں ہوں نہ وہ آنکھیں نہ وہ نیندوں کا خمار
اب وہ میں ہوں نہ وہ آنکھیں نہ وہ نیندوں کا خمار
اب مری شکل پہ کتبہ ہے کسی اجنبی کا
------------------------------------
میری سانسیں بھی کسی اور کے سینے میں ہیں
میری سانسیں بھی کسی اور کے سینے میں ہیں
میری آنکھوں کی بصارت بھی نہیں ہے میری
اب تو زندہ ہوں فقط نام لگا کر اپنا
--------------------------------------
کوئی آسیب سا لگتا ہے محبت کا خیال
حسن بھی آنکھ کی خواہش کے مطابق نہ ملے
اور سوچوں پہ بھی پہرہ ہے روایات کا اب
بس تضادات کا جنگل سا ہے اب ذات مری
-----------------------------------
تو سمجھتی ہے میں کہقاف کا شہزادہ ہوں
تو نے چاہا ہے مرے اصل سے ہٹ کر مجھ کو
تو مری ذات میں جھانکے گی تو ڈر جائے گا
No comments:
Post a Comment