Saturday, July 21, 2012

تک بندی "بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے"

انحراف فورم کے 20 جولائ 2012 کے فی البدیہہ طرحی
مشاعرے کے لئے کہی ہوئی میری غزل

اب عشق میں وہ پہلے سے جھگڑے نہیں رہے
کیوں کہ نباہے جانے کے وعدے نہیں رہے

بےزار ہوگئے ہیں محبت کے خواب سے
کیا کیجیے کہ دل پہ بھروسے نہیں رہے

زلت مآب ہو گئے عزت مآب سے
جب سے سخن میں جھوٹ کے پردے نہیں رہے

اس درجہ بے قراری سے مت کھوجیے ہمیں
بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے

رو روہ کے مانگنے سے بھلا کوئی کب ملا
ویسے بھی مانگنے کے زمانے نہیں رہے

قول و قرار سچ ہیں ہیں ترے اشک بھی بجا
لیکن محبتوں کے یہ کلیے نہیں رہے

تیرے خلوص کا ہے یقیں سانس کی طرح
ہے المیہ کہ اب ہمی سچے نہیں رہے

No comments:

Post a Comment