Wednesday, February 29, 2012

رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

۲۴ جنوری ۲۰۱۲- جدید ادبی فورم میں کہیں گئی فی لبدیہ غذل- طرح مصرع : "رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی"
ہم التزام کے عادی تھے آشنائی میں بھی
سو لطف آیا نہ دل کو تری رسائی میں بھی

وفا کے نام پہ ہم نے تو قید ہی کاٹی
کہ ایک ضبطِ مسلسل رہا جدائی میں بھی

میں دل کی انگلی کو تھامے خموش چلتا رہا
وہ لین دین کا قائل تھا آشنائی میں بھی

میں اپنے درد کی تشہیر کرتا رہتا ہوں
کہ ایک طرزفغاں ہے یہ بے نوائی میں بھی

بس ایک بار اسے پیار سے کوئی دیکھے
رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

ندامتوں میں گرا ہوں جھکا سا رہتا ہوں
کبھی تھا مجھ کو بہت زعم پارسائی میں بھی

وہ چھوڑ جائے مگر اس کو کوئی سمجھائے
کوئی سلیقہ تو ہوتا ہے بے وفائی میں بھی

متفرق خیلات - دیکھنے کو تو مرے ہاتھ میں ہے جام مگر

دیکھنے کو تو مرے ہاتھ میں ہے جام مگر
کون جانے کہ فقط پیاس بھری ہے اس میں

بانٹنے والے تجھے لوٹ کے آنا ہوگا
پہلی باری میں ملا مجھ کو لفافہ خالی

اس قدر دھوکے ملے چہرہِ انسانی سے
اب توجی کرتا ہے جنگل میں بسیرا کر لیں

زخم اوروں کو دکھا نا تو ہے ذلت اس کی
 دل اگر چوٹ بھی کھائے تو چھپا جاتا ہے

درد کتنا ہی بڑھے آہ نہ منہ سے نکلے
مجھ کو ہمدردیِ احباب سے خوف آتا ہے

Tuesday, February 28, 2012

الائو سانس کا جلتا

الائو سانس کا جلتا ہے سخت محنت سے
میں اپنے ذات سے نمٹوں تو آپ کو دیکھوں

مفردات

غمِ معاش میں الجھے ہیں روزوشب ایسے
نہ زندگی سے تعارف نہ موت کی ہی خبر

یہ دل تو لے کے چلا تھا تمہاری سمت مگر
ضرورتوں نے مرے راستے بدل ڈالے

بہت سے لوگ ہیں جن سے ملن ضروری ہے
مگر یہ سانس کی ڈوری کہ باندھ رکھتی ہے

گرآپ کہتے ہیں اچھا تو دوست یوں ہی سہی
یہ آئینہ تو مجھے سوگوار رکھتا ہے

Thursday, February 23, 2012

راکھ کو آگ لگائے

اپنی محرومی کا بدلہ تو غریبوں سے نہ لے
راکھ کو آگ لگائے گا تو کیا پائے گا

تجھ کو ادراک نہیں

آزمائش ہے ترے ظرف کی یہ ظلم نہیں
تجھ کو ادراک نہیں خاص نظر میں ہے تو

Wednesday, February 22, 2012

میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

گناہ کر نہیں سکتا، ثواب کرتا نہیں
میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

علی بھائی کی اصلاح

گنہ کے باب میں نہ ہی درِ ثواب میں ہوں
میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

مرے ارادے بھی کمزور میرا دل بھی غضب

مرے ارادے بھی کمزور میرا دل بھی غضب
میں ہار جائوں گا اے حسن امتحان نہ لے

Sunday, February 19, 2012

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے

بے خودی کا ہی سہاراہے  کہ جی پاتے ہیں
ہوش آتا ہے تو پتھر کے سے ہو جاتے ہیں

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے
خلوت ذات کے اوقات سے گھبراتے ہیں

آئینہ توڑدیا پھوڑ لیں آنکھیں اپنی
داغ چہرے کے مگر پھر بھی نظر آتے ہیں

دل یہ کالا ہوا اتنا کہ گنہ کر کے بھی
مطمئن رہتے ہیں آرام سے سو جاتے ہیں

ہم پہ تکیہ نہ کرو صدق و امانت کا کھی
ہم وہ بدذات جو خود آپ کو ٹھگ جاتے ہیں
یا
ہم وہ بدذات ہیں جو خود  کو بھی ٹھگ جاتے ہیں

Friday, February 17, 2012

میں آسماں جسے کہتا رہا

میں آسماں جسے کہتا رہا وہ نیل گگن
میری طرح کا خلا تھا نظر کا دھوکا تھا

متفرق خیالات

تیری چاہت پہ بضد ہوں مگر اس ضد کا کیا
میں بھی انسان ہوں تھک جائوں گا آخر اک دن

کتنے سالوں سے ترا نام بھی آیا نہ کہیں
یاد بھولے سے چلی آتی ہے مرضی اس کی

شمع کتنی بھی جلے راکھ مقدر اس کا
شعلہ کتنا بھی چڑھے انت دھواں ہی ہو گا

تیرے آنے پہ بہت خوش ہوئے زندہ ہی رہے!
ماتمِ ہجر بھی ہوگا تو کہاں تک ہو گا

اس قدر خوف محبت سے ہے دل میں کہ اب
چاہ کر بھی یہ محبت نہیں ہو گی تجھ سے

پھول جنت سے گرے ہیں کہ حسیں چہرے ہیں
حسنِ انسان سے بڑھ نہیں جلوہ کوئی

Thursday, February 16, 2012

بکھرے خیالات

بساط کیا ہے بشر کی ؟ بشر سے آس نہ رکھ
برسنا چاہے اگر تو تو بارشوں سا برس

حیات مہنگی ہے کتنی، معالجوں کو پتہ
جو سانس سانس پہ قیمت وصول کرتے ہیں

دوائیاں تو میں برسوں سے کھا رہا تھا مگر
شفا ملی ہے مجھے صرف تیرے لہجے سے

گناہ کرتا رہوں اور ساتھ توبہ بھی
خدا رحیم بہت ہے پر اتنا بھولا نہیں

تھا زعم ہم کو بہت اپنی پارسائی پر
بس ایک لمحے کی سازش نے بے زبان کیا

میں کانپ جاتا ہوں دیکھوں جو بے بسی اپنی
غرور پھر بھی ہے اتنا خدا کہوں خود کو

بہت سا پیارجو اب تک تہہِ زبان رہا
نکلتا رہتا ہے دل سے دعائوں کی صورت

Tuesday, February 14, 2012

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

اردو انجمن کا فی البدیہ طرحی مشاعرہ

درد رہتا ہے نہ سکھ چین سدا ہوتا ہے
سب چلے جاتے ہیں بس نامِ خدا ہوتا ہے

وقت دریا خس و خاشاک ہیں ہم تم
دیکھتے دیکھتے ہر نقش ہوا ہوتا ہے

موت نے دانت نکالے ہیں میں سہما سا پھروں
زندگی جب بھی تجھے چاہوں دغا ہوتا ہے

یہ محبت جو زمانے میں بہت عام سی ہے
اس محبت میں بشر اپنا خدا ہوتا ہے

جسم کو جسم سے مطلب ہے خلاصہ یہ ہے
باقی تمہید ہے تمہید سے کیا ہوتا ہے

عشق بھی حسن سے وابستہ ہے سائے کی طرح
حسن ڈھلتا ہے تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

شعر لکھتا ہوں تو خامے سے اٹھیں ٹیسیں سی
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

جان دے کر بھی بچانا یہ ثقافت لوگو

چہرہ پردے سے ڈھکا نظریں ہیں نیچی نیچی
یہ مری قوم کی بیٹی کی ہے صورت لوگو

غیر نے نقب زنی کی ہے مری رسموں ہر
جان دے کر بھی بچانا یہ ثقافت لوگو

تکلیف

تجھ کو اپنانے میں مجھ کو تو کوئی عذر نہیں
لیکن اس دنیا کو ہو جائے گی تلکیف بہت

کوئی آئے گا

کوئی آئے گا مرے پاس تو کیوں آئے گا
ایک ہی دل تھا جو اب ٹوٹ چکا مر بھی چکا

جگجیت سنگھ کی یاد میں---


 جگجیت سنگھ کی یاد میں---

عمر بھر جاگتے رہنا تھا مقدر جس کا
سوگئی آج وہ آواز ہمیشہ کے لیے

وہ کوئی فرد نہیں شہر تھا دل والوں کا
اس کے مر جانے سے ویران ہوئے لاکھوں دل

وقت کی کشتی

ہجر بھی وصل بھی چاہت بھی وفا بھی دل بھی
آنکھ بھہ پونٹ بھی ہونٹوں سے لٹکتا تل بھی
وقت کی کشتی میں بیٹھے ہیں چلے جائیں گے سب!

کوزہ گر تو نے اگر پیار سے جوڑا ہوتا

چاہنے سے ہی کوئی شخص جو اپنا ہوتا
کیسے ممکن تھا مرا خواب پرایا ہوتا

لوگ اپنے ہی مسائل میں مگن بھی گم بھی
تو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا

مسئلہ جینے کا درپیش کبھی خوفِ اجل
مل بھی جاتا وہ اگر کرب نہ تھوڑا ہوتا

آدمی جذبہِ بےتاب کی مٹی سے بنا
رزقِ ممنوع نہ کھاتا تو بھی ایسا ہوتا

کارواں ساتھ سہی درد ہیں اپنے اپنے
تو زمانے سے نبھاتا بھی تو تنہا ہوتا

میں بگولے کی طرح پھرتا نہ گلیوں گلیوں
کوزہ گر تو نے اگر پیار سے جوڑا ہوتا

خواب بوڑھے بھی تو ہو جاتے ہیں مرتے بھی ہیں
انتظار آپ کا ہوتا بھی تو کتنا ہوتا
http://www.facebook.com/photo.php?fbid=175743885868384&set=oa.361520293865926&type=1&theater