Thursday, February 16, 2012

بکھرے خیالات

بساط کیا ہے بشر کی ؟ بشر سے آس نہ رکھ
برسنا چاہے اگر تو تو بارشوں سا برس

حیات مہنگی ہے کتنی، معالجوں کو پتہ
جو سانس سانس پہ قیمت وصول کرتے ہیں

دوائیاں تو میں برسوں سے کھا رہا تھا مگر
شفا ملی ہے مجھے صرف تیرے لہجے سے

گناہ کرتا رہوں اور ساتھ توبہ بھی
خدا رحیم بہت ہے پر اتنا بھولا نہیں

تھا زعم ہم کو بہت اپنی پارسائی پر
بس ایک لمحے کی سازش نے بے زبان کیا

میں کانپ جاتا ہوں دیکھوں جو بے بسی اپنی
غرور پھر بھی ہے اتنا خدا کہوں خود کو

بہت سا پیارجو اب تک تہہِ زبان رہا
نکلتا رہتا ہے دل سے دعائوں کی صورت

No comments:

Post a Comment