Tuesday, February 14, 2012

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

اردو انجمن کا فی البدیہ طرحی مشاعرہ

درد رہتا ہے نہ سکھ چین سدا ہوتا ہے
سب چلے جاتے ہیں بس نامِ خدا ہوتا ہے

وقت دریا خس و خاشاک ہیں ہم تم
دیکھتے دیکھتے ہر نقش ہوا ہوتا ہے

موت نے دانت نکالے ہیں میں سہما سا پھروں
زندگی جب بھی تجھے چاہوں دغا ہوتا ہے

یہ محبت جو زمانے میں بہت عام سی ہے
اس محبت میں بشر اپنا خدا ہوتا ہے

جسم کو جسم سے مطلب ہے خلاصہ یہ ہے
باقی تمہید ہے تمہید سے کیا ہوتا ہے

عشق بھی حسن سے وابستہ ہے سائے کی طرح
حسن ڈھلتا ہے تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

شعر لکھتا ہوں تو خامے سے اٹھیں ٹیسیں سی
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

No comments:

Post a Comment