بے خودی کا ہی سہاراہے کہ جی پاتے ہیں
ہوش آتا ہے تو پتھر کے سے ہو جاتے ہیں
ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے
خلوت ذات کے اوقات سے گھبراتے ہیں
آئینہ توڑدیا پھوڑ لیں آنکھیں اپنی
داغ چہرے کے مگر پھر بھی نظر آتے ہیں
دل یہ کالا ہوا اتنا کہ گنہ کر کے بھی
مطمئن رہتے ہیں آرام سے سو جاتے ہیں
ہم پہ تکیہ نہ کرو صدق و امانت کا کھی
ہم وہ بدذات جو خود آپ کو ٹھگ جاتے ہیں
یا
ہم وہ بدذات ہیں جو خود کو بھی ٹھگ جاتے ہیں
ہوش آتا ہے تو پتھر کے سے ہو جاتے ہیں
ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے
خلوت ذات کے اوقات سے گھبراتے ہیں
آئینہ توڑدیا پھوڑ لیں آنکھیں اپنی
داغ چہرے کے مگر پھر بھی نظر آتے ہیں
دل یہ کالا ہوا اتنا کہ گنہ کر کے بھی
مطمئن رہتے ہیں آرام سے سو جاتے ہیں
ہم پہ تکیہ نہ کرو صدق و امانت کا کھی
ہم وہ بدذات جو خود آپ کو ٹھگ جاتے ہیں
یا
ہم وہ بدذات ہیں جو خود کو بھی ٹھگ جاتے ہیں
No comments:
Post a Comment