Sunday, February 19, 2012

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے

بے خودی کا ہی سہاراہے  کہ جی پاتے ہیں
ہوش آتا ہے تو پتھر کے سے ہو جاتے ہیں

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے
خلوت ذات کے اوقات سے گھبراتے ہیں

آئینہ توڑدیا پھوڑ لیں آنکھیں اپنی
داغ چہرے کے مگر پھر بھی نظر آتے ہیں

دل یہ کالا ہوا اتنا کہ گنہ کر کے بھی
مطمئن رہتے ہیں آرام سے سو جاتے ہیں

ہم پہ تکیہ نہ کرو صدق و امانت کا کھی
ہم وہ بدذات جو خود آپ کو ٹھگ جاتے ہیں
یا
ہم وہ بدذات ہیں جو خود  کو بھی ٹھگ جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment