Saturday, June 30, 2012

تک بازی


مجھے سچ ڈھونڈنے کی عادتیں تھیں
زمین و آسماں سے کٹ گیا ہوں

مجھے معیار تنہا کر گیا ہے
میں ہر شے کو مکمل چاہتا ہوں

مجھے معلوم تھی اوقات خواہش
میں اپنے پاس بیتھا رہ گیا ہوں

کہانی مر گئی میری مگر میں
کسی برگد پہ لکھا رہ گیا ہوں

مری محفل میں سورج آگیا ہے
میں جگنو، ہاتھ ملتا رہ گیا ہوں

مرے خوابوں میں جنت کا نشاں تھا
سو تعبروں کا پیاسا رہ گیا ہوں

 میں پہلے لفظ بن کر بولتا تھا
مگر اب صرف لہجہ رہ گیا ہوں

وفور شوق میں خوشبو سے غافل
میں رنگوں سے بہلتا رہ گیا ہوں

تو ہے کم سن تجھے معلوم نہیں کل کا دکھ

تو ہے کم سن تجھے معلوم نہیں کل کا دکھ
صرف تنہائی نظر آئے جہاں تک دیکھوں

لوگ اجسام کے قیدی تھے بہت کمتر تھے

عشق تو عشق ضرورت کے بھی قابل نہ تھا
کوئی محبوب رفاقت کے بھی قابل نہ تھا

لوگ اجسام کے قیدی تھے بہت کمتر تھے
یہ زمانہ مری نفرت کے بھی قابل نہ تھا

میں جسے پوجتا آیا ہوں وہ پتھر کا خدا
آج بولا تو حقارت کے بھی قابل نہ تھا

ہائے وہ خواب کا عالم وہ تخیل کا فسوں
میری بے کارفراغت کے بھی قابل نہ تھا

ہم ہی پاگل تھے وفائوں کا علم لے کے چلے
وہ تو اک لمحے کی چاہت کے بھی قابل نہ تھا

میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

فرض کرکے کہ یہ میرے ہیں مری آنکھ میں ہیں
میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

زندگی گزری ہے اک خواب سے لڑتے لڑتے

اپنی ہی خواہشِ بے تاب سے لڑتے لڑتے
زندگی گزری ہے اک خواب سے لڑتے لڑتے
گھر تو لوٹ آتا ہوں سورج سے بچھڑ کر میں بھی
رات لیکن کٹے مہتاب سے لڑتے لڑتے

تم نے اس دور میں کھولی ہے محبت کی دوکاں

تم نے اس دور میں کھولی ہے محبت کی دوکاں
جب خریدار کو روٹی سے ہی فرصت نہ ملے

ایک ہی دن کا ہے جینا کوئی سو سال جیے

روز اک دن کو الٹ دیتا یوں جیسے تیسے
اور سو جاتا ہوں تھک ہار کے جب شام ڈھلے
صبح دم سر پہ کھڑا ہوتا ہے پھر سے  وہی دن
ایک ہی دن کا ہے جینا کوئی سو سال جیے

سانحہ یہ ہے کہ اب دردمیں چین آتا ہے

بندگی دل کی عبادت سے بھی آگے کی ہے
کہ محبت تو عقیدت سے بھی آگے کی ہے

سانحہ یہ ہے کہ اب دردمیں چین آتا ہے
بات اب درد و اذیت سے بھی آگے کی ہے

Sunday, June 24, 2012

زندگی قرض کے احساس ندامت جیسی

رونقِ حسن ہے باقی نہ کوئی جذبہ دل
زندگی قرض کے احساس ندامت جیسی

ساتھ چلتے ہیں مگر حوصلہ اپنا اپنا
مل کے رہتے ہیں کہ دنیا کی روایت ٹھہری

ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

دل کے نقصاں کا ازالہ بھی نہیں ہو سکتا
زندگی تیرا اعادہ بھی نہیں ہو سکتا

ایسی تنہائی کہ خود سے بھی کبھی مل نہ سکوں
بھیڑ اتنی کہ اکیلا بھی نہیں ہو سکتا

ہائے نفرت  بھی غضب اور ضرورت بھی بہت
ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

یہ رواجوں کی گھٹن قبر سے بڑھ کو محبوس
اور دنیا سے کنارہ بھی نہیں ہو سکتا

بادشہ جس کو بنایا ہے تری چاہت نے
تجھ سے بچھڑا تو کسی کا بھی نہیں ہو سکتا

Tuesday, June 19, 2012

قسم لے لو، وہاں پر کچھ نہیں ہے

 گیا تھا یار کے کوچے کو میں بھی
قسم لے لو، وہاں پر کچھ نہیں ہے

بچھڑ رہے ہیں مگر دل بچھڑنے دیتا نہیں
سو ایک دوجے کو الزام دے رہیں ہم

وہ پیار سمجھے ہے جس کو ہمارا پیشہ ہے

وفا کے نام پہ کرتے ہیں چاکری اس کی
وہ پیار سمجھے ہے جس کو ہمارا  پیشہ ہے

Monday, June 18, 2012

بس ایک رستہ گنہ کا ہی اب نکلتا ہے

صحیح طریقے ہیں جتنے ، قبول عام نہیں
بس ایک رستہ گنہ کا ہی اب نکلتا ہے

تجھے بھی دینی پڑی ہیں وضاحتیں اب تو


تو ہی تو تھا جو کبھی بھی خفا  نہ ہوتا تھا
تجھے بھی دینی پڑی ہیں وضاحتیں اب تو
کئی برس ہوئے تنہائیوں کی عادت ہے
کہ بوجھ لگتی ہیں دل پر رفاقتیں اب تو
وفا کے نام پہ کرتے ہیں چاکری اس کی
محبتیں ہیں اصل میں مشقتیں اب تو
ملازمت کی طرح ہیں محبتیں اب تو

ہم بے ٹھکانہ لوگوں کا نام و پتہ نہ پوچھ


ہمدردی و خلوص کے ذوق و اثر میں ہم
نفرت تک آگئے ہیں وفا کے سفر میں ہم

ہم بے ٹھکانہ لوگوں کا نام و پتہ نہ پوچھ
منزل کو روندھ آئے ہیں شوقِ سفر میں ہم

مہماں نواز ایسے کہ مہمان کے لیے
مہمان بن گئے ہیں خود اپنے ہی گھر میں ہم

رونا تو یہ کہ جس کو سمجھتے تھے دوجہاں
نامعتبر ہوئے ہیں اسی کی نظر میں ہم

مایوس کیوں نہ کرتا یہ صحرائے زندگی
سایہ تلاش کرتے تھے سورج کے گھر میں ہم

آباد تجھ کو کر کے کچھ اجڑے ہیں اس طرح
رشتے بناتے پھرتے ہیں ہر اک نگر میں ہم

Saturday, June 16, 2012

جو تیرے خواب میں آتا ہے بن کے شہزادہ

نظر سے دور ہوا آنکھ سے گیا بھی نہیں
وہ ایک شخص جو میرا کبھی رہا بھی نہیں

میں اس کی یاد لیے زندگی گزار گیا
وہ بے خبر مرے بارے میں جانتا بھی نہیں

جو تیرے خواب میں آتا ہے بن کے شہزادہ
وہ بے نصیب حقیقت میں عام سا بھی نہیں

تو جس کے سامنے حدِ ادب میں رہتا ہے
ترے علاوہ اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں

تو جس کے قرب میں ڈھونڈے علاجِ تنہائی
 وہ خود اکیلا ہے اتنا کہ آئینہ بھی نہیں

تو جس کے خواب لیے مضطرب سا پھرتا ہے
وہ دنیا دار محبت کو مانتا بھی نہیں 

Friday, June 15, 2012

تک بازی - وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

جدید ادبی تنقیدی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ ۱۵ جون ۲۰۱۲ میں پیش کردہ غزل

یہ دشت یہ سورج یہ سماں یاد رہے گا
مر کر بھی دکھوں کا یہ جہاں یاد رہے گا

آغاز نہ انجام نہ موجود کو جانوں
تاعمر بس اک وہم و گماں یاد رہے گا

وہ سامنے آئے بھی تو اغیار کے ہو کر
وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

میں بھول بھی سکتا ہوں تری بات کا مطلب
لیکن ترے لہجے کا بیاں یاد رہے گا

ہم اہل دلِ زار تو قاری ہیں نظر کے
اس آنکھ کا ہر اذنِ نہاں یاد رہے گا

ہمیں یوں بھی گوارا ہے، چلو تم "بے وفا" کہہ لو

میں جس سے عشق کرتا ہوں، وہ پاگل سا ہو جاتا ہے
خدایا میری چاہت میں، نشہ ہے یا کہ پاگل پن؟

اگر تم یہ سمجھتے ہو جدا ہونا یوں آساں ہے
ہمیں یوں بھی گوارا ہے، چلو تم "بے وفا" کہہ لو


بٹ گیا سب تو خریدا چلے آئے ہیں

ڈھل گئی  عمر تو سرکار چلے آئے ہیں
جیب خالی لیے بازار چلے آئے ہیں

حسن تھک ہار کے اب ہو بھی چکا بیگانہ
آپ اب عشق میں سرشار چلے آئے ہیں

محفلیں جب تھی جواں دشت میں جا بیٹھے تھے
چھٹ گیا میلہ تو دربار چلے آئے ہیں

جب تلک پاس تھے کچھ فیصلہ دل سے نہ ہوا
ہجر میں عشق کے آزار چلے ائے ہیں

خود کو جب بانٹتے پھرتے تھے کوئی لیتا نہ تھا
بٹ گیا سب تو خریدا چلے آئے ہیں

عشق کی قلم رو میں دل سے جنگ مت کرنا

عشق کی قلم رو میں دل سے بحث مت کرنا
عقل ہار جائے گی، حسن جیت جائے گا

Monday, June 11, 2012

تک بازی

انحراف ادبی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ ۸ جون ۲۰۱۲ میں پیش کی گئی کاوشِ
بیاد استاد قمر جلالوی

وہ شخص عشق کر گیا احساں کے ساتھ ساتھ
یعنی کہ زخم دے گیا درماں کے ساتھ ساتھ

ہمدردی کی زبان میں لپٹا ہوا تھا پیار
دل بھی دھڑک دھڑک گیا باتاں کے ساتھ

جذبے بہک رہے ہیں عقیدت کے آس پاس
کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ

مٹی مرے وجود کی بے چین سی رہے
خود کو بھی ڈھونڈتا ہوں میں یزداں کے ساتھ ساتھ

کچھ پر گری ہیں بجلیاں کچھ بجلی کے بغیر
آزاد بھی اداس ہیں رحماں کے ساتھ ساتھ
(ادریس آزاد بھائی اور رحمان حفیظ بھائی کے نام)

یہ عالم خیال ہے کوئی نہ دیکھے گا
کچھ دیر چل کے دیکھیے ریحاں کے ساتھ ساتھ

Tuesday, June 5, 2012

مجذوب بن گئے ہیں جو چادر لپیٹ کر

دربار عشق میں بھی دغابازہیں بہت
مجذوب بن گئے ہیں جو چادر لپیٹ کر

Monday, June 4, 2012

وہ جو صدیوں کی مسافت میں ملا ہے مجھ کو

وہ جو صدیوں کی مسافت میں ملا ہے مجھ کو
کیسے کھو سکتا ہوں لمحوں کی خطا میں اس کو

تجھ کو سینے سے نہیں سر سے لگایا میں نے

تجھ کو سینے سے نہیں سر سے لگایا میں نے
اب مرے عشق پہ خواپش کا تو الزام نہ دھر

Friday, June 1, 2012

تو بھی بھٹکا ہوا پھرتا ہے سرابوں میں کہیں

میں بھی بے جوڑ کسی رشتے کی زد پہ آیا
تو بھی بھٹکا ہوا پھرتا ہے سرابوں میں کہیں
ہم بھی آخر انہی قصوں کا ہی کردار ہوئے
جو پڑھا کرتے تھے بچپن کی کتابوں میں کہیں