دل کے نقصاں کا ازالہ بھی نہیں ہو سکتا
زندگی تیرا اعادہ بھی نہیں ہو سکتا
ایسی تنہائی کہ خود سے بھی کبھی مل نہ سکوں
بھیڑ اتنی کہ اکیلا بھی نہیں ہو سکتا
ہائے نفرت بھی غضب اور ضرورت بھی بہت
ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا
یہ رواجوں کی گھٹن قبر سے بڑھ کو محبوس
اور دنیا سے کنارہ بھی نہیں ہو سکتا
بادشہ جس کو بنایا ہے تری چاہت نے
تجھ سے بچھڑا تو کسی کا بھی نہیں ہو سکتا
No comments:
Post a Comment