Sunday, June 24, 2012

ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

دل کے نقصاں کا ازالہ بھی نہیں ہو سکتا
زندگی تیرا اعادہ بھی نہیں ہو سکتا

ایسی تنہائی کہ خود سے بھی کبھی مل نہ سکوں
بھیڑ اتنی کہ اکیلا بھی نہیں ہو سکتا

ہائے نفرت  بھی غضب اور ضرورت بھی بہت
ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

یہ رواجوں کی گھٹن قبر سے بڑھ کو محبوس
اور دنیا سے کنارہ بھی نہیں ہو سکتا

بادشہ جس کو بنایا ہے تری چاہت نے
تجھ سے بچھڑا تو کسی کا بھی نہیں ہو سکتا

No comments:

Post a Comment