عشق تو عشق ضرورت کے بھی قابل نہ تھا
کوئی محبوب رفاقت کے بھی قابل نہ تھا
کوئی محبوب رفاقت کے بھی قابل نہ تھا
لوگ اجسام کے قیدی تھے بہت کمتر تھے
یہ زمانہ مری نفرت کے بھی قابل نہ تھا
میں جسے پوجتا آیا ہوں وہ پتھر کا خدا
آج بولا تو حقارت کے بھی قابل نہ تھا
آج بولا تو حقارت کے بھی قابل نہ تھا
ہائے وہ خواب کا عالم وہ تخیل کا فسوں
میری بے کارفراغت کے بھی قابل نہ تھا
ہم ہی پاگل تھے وفائوں کا علم لے کے چلے
وہ تو اک لمحے کی چاہت کے بھی قابل نہ تھا
No comments:
Post a Comment