Saturday, June 30, 2012

تک بازی


مجھے سچ ڈھونڈنے کی عادتیں تھیں
زمین و آسماں سے کٹ گیا ہوں

مجھے معیار تنہا کر گیا ہے
میں ہر شے کو مکمل چاہتا ہوں

مجھے معلوم تھی اوقات خواہش
میں اپنے پاس بیتھا رہ گیا ہوں

کہانی مر گئی میری مگر میں
کسی برگد پہ لکھا رہ گیا ہوں

مری محفل میں سورج آگیا ہے
میں جگنو، ہاتھ ملتا رہ گیا ہوں

مرے خوابوں میں جنت کا نشاں تھا
سو تعبروں کا پیاسا رہ گیا ہوں

 میں پہلے لفظ بن کر بولتا تھا
مگر اب صرف لہجہ رہ گیا ہوں

وفور شوق میں خوشبو سے غافل
میں رنگوں سے بہلتا رہ گیا ہوں

No comments:

Post a Comment