Friday, June 15, 2012

تک بازی - وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

جدید ادبی تنقیدی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ ۱۵ جون ۲۰۱۲ میں پیش کردہ غزل

یہ دشت یہ سورج یہ سماں یاد رہے گا
مر کر بھی دکھوں کا یہ جہاں یاد رہے گا

آغاز نہ انجام نہ موجود کو جانوں
تاعمر بس اک وہم و گماں یاد رہے گا

وہ سامنے آئے بھی تو اغیار کے ہو کر
وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

میں بھول بھی سکتا ہوں تری بات کا مطلب
لیکن ترے لہجے کا بیاں یاد رہے گا

ہم اہل دلِ زار تو قاری ہیں نظر کے
اس آنکھ کا ہر اذنِ نہاں یاد رہے گا

No comments:

Post a Comment