Thursday, September 30, 2010

یہاں تیمارداری کو بھی لکھ لیتے ہیں کاغذ پر

یہاں تیمارداری کو بھی لکھ لیتے ہیں کاغذ پر
کہ کل بیمار جب میں ہوں ترا آنا بھی لازم ہے

تم نہیں ہو مگر پھر بھی

تم نہیں ہو مگر پھر بھی

ایسا لگتا ہے کہ تم ہو

ایک احساس ہے جو مجھے

کبھی تنہا ہونے نہیں دیتا

درد میں غم میں تیرا خیال

تھام لیتا ہے مجھے

اور رونے نہیں دیتا

Tuesday, September 28, 2010

مری بے کار سی باتیں تری پر مغز خاموشی

مری بے کار سی باتیں تری پر مغز خاموشی
تری قربت کا سوچوں تو یہی کچھ یاد آتا ہے

محبت

بکھرتی ہے تو خوشبوئوں پہ کچھ قابو نہیں رہتا
محبت پھول جیسی ہے
بھٹکتی ہے تو کانوں  میں دبا کر انگلی چلتی ہے
بہت گھمسان رستوں سے بنا دیکھے گزرتی ہے
محبت بھول جیسی ہے
کسی کم سن جوانی سے جو انجانے میں ہو جائے
گلی کوچوں میں اڑتی ہے
 یہ پیروں سے لپٹتی ہے
ہوا کا رخ بدلنے پر، یہ اپنا در بدلتی ہے
 محبت دھول جیسی ہے

Monday, September 27, 2010

انتہا ملن کی تو ، ٹوٹنے کے اندر ہے

زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے
جس طرح بھی ممکن ہو
اس نے چلتے جانا ہے
وقت کے بہائو میں
ہم نے بہتے جانا ہے
رزق ہو تعلق ہو
یہ تو بس بہانے ہیں
آدمی کی قسمت میں
کو بکو بھٹکنا ہے
دردبدر بہکنا ہے
دو قدم مسافت پر
راستہ بدلنا ہے
راستہ نہ بدلے بھی
تو بھی اس کو جانا ہے
عمر بھر کی سنگت کو
ایک پل نہیں لگتا
سامنے نگاہوں کے
سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں
گرہیں چھوٹ جاتی ہیں
ہم بھی کتنے پاگل ہیں
رزق کو ، تعلق کو
جوڑ جوڑ رکھتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
انتہا ملن کی تو ، ٹوٹنے کے اندر ہے
 زندگی سفر میں ہے ، آدمی مسافر ہے

Sunday, September 26, 2010

پیار محبت عشق کے وعدے

بیج وہی، زمین وہی

لیکن مرضی موسم کی

موسم فیصلے کرتا ہے

کب پھولوں کو کھلنا ہے

کب پتوں کو جھڑنا ہے

پیار محبت عشق کے وعدے

کس کے بس کی باتیں ہیں؟

Wednesday, September 22, 2010

درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر


درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر
میں اسے دیکھتا جاتا تھا شرابی ہو کر

اس کی چپ چاپ نگاہیں تھیں سوالی جیسی
اور میں ضبط گنوا بیٹھا جوابی ہو کر

پھر اسے اور مجھے اور کہیں جانا تھا
ایک لمحے کو وہ ٹھہرا تھا حبابی ہو کر

وہ دل و جان سے میرا ہے مگر اس کا وجود
چھین لے گا یہ زمانہ ہی عقابی ہو کر

عشق میں سود و زیاں کارِ جہالت تھا ریحان
راکھ ہی راکھ سمیٹی ہے حسابی ہو کر


Tuesday, September 21, 2010

اس حسین موسم میں

اس حسین موسم میں
تیرتی ہوائوں میں
پیار کی مہک سی ہے
اور اس کی آنکھوں کی
نرم سی جھلک بھی ہے
چاند کی طرف دیکھو
کیسے چاند لیٹا ہے
چاند کے بچھونے پر
اور اس کی آنکھیں بھی
ڈبکیاں لگاتی ہیں
اور ڈوب جاتی ہیں
دور افق پر اے دوست
دور افق پر اے دوست
اس حسین موسم میں

اجنبی کہوں کیوں کر

اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر
چاہ کےمحبت کے
سارے خواب ہم سے ہیں
رسم ہے زمانے کی
عشق کو دبا رکھنا
بارشوں کے موسم میں
حبس سا بنا رکھنا
قید کے اذیت کے
سب حساب ہم سے ہیں
سادگی بھی ہم سی ہے
عاجزی بھی ہم سی ہے
اور خوشی کے موسم میں
یہ ہنسی بھی ہم سی ہے
پھول مسکراہٹ کے
جب کبھی بھی کھلتے ہیں
ہونٹ کھینچ دیتے ہیں
آنکھ میچ دیتے ہیں
دانت جھانک لیتے ہیں
سانس سانس جینے کے
سارے باب ہم سے ہیں
ہر برس جنم دن پر
ہم بھی سوچتے ہیں اور
تم بھی سوچتے ہو گے
اس خدائے برتر نے
ہم کو آسمانوں سے
کس لیے اتارا ہے
کس لیے بنا یا ہے
زیست کے تعلق کے
سب سوال ہم سے ہیں
سب جواب ہم سے ہیں
اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر

Friday, September 17, 2010

بسترِ مرگ اب خالی ہے

لو ہم یہ جگہ چھوڑ چلے
 لوبسترِ مرگ اب خالی ہے - کسی اور کی جاں لینے کو
جس میں دم ہو چلا آئے

ٹوٹ کر چاہنے والے اکثر

ٹوٹ کر چاہنے والے اکثر
توڑ کر چھوڑ بھی تو جا تے ہیں

اتنا بڑا گھائو ہے سینے میں

اتنا بڑا گھائو ہے سینے میں
تم جو لگو سینے سے
  سما سکتے ہو سینے میں

Thursday, September 16, 2010

اس کی وہ نرم گلابی سی ہنسی

چاندنی پھول کھلانے آئی
رات کو دھوپ بنانے آئی

گھپ اندھیرا تھا مرے رستوں میں
اک کرن دل کو جلانے آئی

اس کی وہ نرم گلابی سی ہنسی
گدگدی دل میں جگانے آئی

زندگی سست جمائی جیسی
تیری آنکھوں میں نہانے آئی

پھر محبت نے پکارا ہم کو
پھر سے دنیا ہی ستانے آئی

پھر سے چپ چاپ چلے آئے ہیں
پھر کوئی یاد سلانے آئی

وہ دعائوں میں مجھے مانگے ریحان
کہکشاں خاک کمانے آئی

Tuesday, September 14, 2010

مجھے سکون نہیں ہے، مجھے سکون نہیں

مجھے سکون نہیں ہے، مجھے سکون نہیں
وہ شخص جب سے حسیں ہے، مجھے سکون نہیں

کوئی نگر تو ہو ایسا جہاں سلوک ملے
یہ خود غرض سی زمیں ہے ، مجھے سکون نہیں

وہ روپ چاند کا لے کر لگانے آگ ہی آئے
گلاب خار نشیں ہے ، مجھے سکون نہیں

کوئی تو زلف کا بادل کبھی امید بنے
یہ دشت جسم حزیں ہے ، مجھے سکون نہیں

کوئی تو پھول لگے دل کے نخلِ حرماں پر
خزاں رسیدہ زمیں ہے ، مجھے سکون نہیں

میں بندگی میں بھلا تھا ، مجھے خدا کیوں کیا

میں بندگی میں بھلا تھا ، مجھے خدا کیوں کیا
خدا بنا ہوں میں جب سے مجھے سکون نہیں

مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو

مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو
تمہاری بندگی مجھ کو تو مار ڈالے گی
کہاں یہ ظرف کہ اتنے گناہ معاف کروں
کہ مجھ میں بوجھ اٹھانے کا حوصلہ کب ہے
کہ میں تو خود ہی کسی گود کی تلاش میں ہوں
تمہارے سجدے مرے پائوں باندھ دیتے ہیں
مجھے بتوں کی طرح قیدِ بے بسی نہ کرو
کہ میں تو خود ہی گرفتارِ جالِ قسمت ہوں
مجھے سزا نہ کرو تم مجھے سزا نہ کرو
مجھے خدا نہ کرو تم، مجھے خدا نہ کرو

Wednesday, September 8, 2010

انہی چند لمحوں سے

اپنے حصے آئے ہیں
چند لمحے چاہت کے
انہی چند لمحوں سے
عمر کشید کرنی ہے

Tuesday, September 7, 2010

یہ محبت ہی تو ہے

یہ محبت ہی تو ہے
جو ہم کو اچھا کہتی ہے
وگرنہ ہم سے لوگوں کو
دھن دولت کی دنیا میں
کون بھلا خریدے گا

تم بھی کوئی موسم ہو

ہر برس دسمبر میں
دل کے سرد خانوں میں
شور ہونے لگتا ہے
تم بھی کوئی موسم ہو
پھر سے لوٹ آتے ہو!



پیار کرنے والے بھی

پیار کرنے والے بھی
ٹوٹتے ستاروں سے
کتنے ملتے جلتے ہیں
ٹوٹتے ستارے بھی
پیار کرنے والوں سے
سرپھرے سے ہوتے ہیں
وصل کی تمنا میں
کہکشاں روایت کی
توڑ کر نکلتے ہیں
خواب کے دلاسوں پر
آسماں سے گرتے ہیں
اور بھول جاتے ہیں
واپسی کے رستوں کو
اور ٹوٹ جاتے ہیں
خواہشوں کے اندر ہی
منزلوں سے پہلے ہی

Saturday, September 4, 2010

کیا دیا محبت نے

کیا دیا محبت نے
چاہنے کی عادت نے
درد ہے اذیت ہے
منہ چھپاتے پھرتے ہیں
عمر بھر ندامت ہے
تم بھی کتنے پاگل ہو
وصل وصل کرتے ہو
اس جہانِ کم تر میں
وصل ہجر ہی تو ہے
ایک جبر ہی تو ہے
ہم نے ساتھ دینا ہے
عمر بھر زمانے کا
اِس طرح بھی قیدی ہیں
اُس طرح بھی قیدی ہیں