Tuesday, September 21, 2010

اجنبی کہوں کیوں کر

اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر
چاہ کےمحبت کے
سارے خواب ہم سے ہیں
رسم ہے زمانے کی
عشق کو دبا رکھنا
بارشوں کے موسم میں
حبس سا بنا رکھنا
قید کے اذیت کے
سب حساب ہم سے ہیں
سادگی بھی ہم سی ہے
عاجزی بھی ہم سی ہے
اور خوشی کے موسم میں
یہ ہنسی بھی ہم سی ہے
پھول مسکراہٹ کے
جب کبھی بھی کھلتے ہیں
ہونٹ کھینچ دیتے ہیں
آنکھ میچ دیتے ہیں
دانت جھانک لیتے ہیں
سانس سانس جینے کے
سارے باب ہم سے ہیں
ہر برس جنم دن پر
ہم بھی سوچتے ہیں اور
تم بھی سوچتے ہو گے
اس خدائے برتر نے
ہم کو آسمانوں سے
کس لیے اتارا ہے
کس لیے بنا یا ہے
زیست کے تعلق کے
سب سوال ہم سے ہیں
سب جواب ہم سے ہیں
اجنبی تو ہو لیکن
اجنبی کہوں کیوں کر

No comments:

Post a Comment