درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر
میں اسے دیکھتا جاتا تھا شرابی ہو کر
اس کی چپ چاپ نگاہیں تھیں سوالی جیسی
اور میں ضبط گنوا بیٹھا جوابی ہو کر
پھر اسے اور مجھے اور کہیں جانا تھا
ایک لمحے کو وہ ٹھہرا تھا حبابی ہو کر
وہ دل و جان سے میرا ہے مگر اس کا وجود
چھین لے گا یہ زمانہ ہی عقابی ہو کر
عشق میں سود و زیاں کارِ جہالت تھا ریحان
راکھ ہی راکھ سمیٹی ہے حسابی ہو کر
No comments:
Post a Comment