Wednesday, September 22, 2010

درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر


درد کی رت میں وہ آیا تھا گلابی ہو کر
میں اسے دیکھتا جاتا تھا شرابی ہو کر

اس کی چپ چاپ نگاہیں تھیں سوالی جیسی
اور میں ضبط گنوا بیٹھا جوابی ہو کر

پھر اسے اور مجھے اور کہیں جانا تھا
ایک لمحے کو وہ ٹھہرا تھا حبابی ہو کر

وہ دل و جان سے میرا ہے مگر اس کا وجود
چھین لے گا یہ زمانہ ہی عقابی ہو کر

عشق میں سود و زیاں کارِ جہالت تھا ریحان
راکھ ہی راکھ سمیٹی ہے حسابی ہو کر


No comments:

Post a Comment