میں اپنی شکل کی حسرت میں جھومتا ہی گیا
جفا کے چاک پہ دن رات گھومتا ہی گیا
تجھے میں جیت گیا پر یہ جیت آخری تھی
پھر اس کے بعد میں ہر پل کو ہارتا ہی گیا
میں ضد پرست تھا کوشش سے باز نہ آیا
مگر نصیب مرا زور توڑتا ہی گیا
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر خموش چلتا رہا
اگرچہ شور ہوا کا پکارتا ہی گیا
میں عام شخص سہی پھر بھی خاص تھا دل کا
مگر یہ زعمِ وفا دل کو روندھتا ہی گیا
میں جب بھی قتل ہو دل کے فیصلوں سے ہوا
مگر میں کیا کہوں دھڑکن سے ہارتا ہی گیا
جفا کے چاک پہ دن رات گھومتا ہی گیا
تجھے میں جیت گیا پر یہ جیت آخری تھی
پھر اس کے بعد میں ہر پل کو ہارتا ہی گیا
میں ضد پرست تھا کوشش سے باز نہ آیا
مگر نصیب مرا زور توڑتا ہی گیا
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر خموش چلتا رہا
اگرچہ شور ہوا کا پکارتا ہی گیا
میں عام شخص سہی پھر بھی خاص تھا دل کا
مگر یہ زعمِ وفا دل کو روندھتا ہی گیا
میں جب بھی قتل ہو دل کے فیصلوں سے ہوا
مگر میں کیا کہوں دھڑکن سے ہارتا ہی گیا