Thursday, October 25, 2012

اس محبت نے وراثت کی طرح بانٹ دیا

جانے کس کس کو ملا کتنا مجھے علم نہیں
اس محبت نے وراثت کی طرح بانٹ دیا
مر گیا مجھ میں ہی جب میری کہانی کا پلاٹ
خود کو پھر مالِ غنیمت کی طرح بانٹ دیا

Saturday, October 20, 2012

میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

یہ سمجھ کر یہ مرے ہیں، کہ مری آنکھ میں ہیں
میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

ایک ہی زخم سے تڑپا کرے کب تک کوئی
ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

جب یہ طے ہے کہ اب اس قید میں گزرے گی حیات
سر کا دیوار سے جھگڑا کرے کب تک کوئی

مرحلہ درد کا بس آہ کے بھرنے تک ہے
درد کا ماتم و گریہ کرے کب کوئی

اب وہ رفتار ہے دل کی نہ موافق حالات
خواہ مخواہ عشق کا رسوا کرے کب تک کوئی

وہ مجھے پیار سے شہزادہ کبھی چاند کہے
وہ ہے پاگل اسے ٹوکا کرے کب تک کوئی

گویا جنت سے بھی مشکل ہے قیام جنت
یعنی گندم سے کنارہ کرے کب تک کوئی

یوں بھی ہوتا ہے مرے دوست، نئی بات نہیں

یہ تو بس زعم ہے اس کا دل کا کہ جاتا ہی نہیں
بات اتنی سی ہے وہ شخص مراتھا ہی نہیں

چاند اور چاند بھی پھر عید کا ابرآلود فضا
وصل تو وصل اسے ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں
 خواب بس خواب ہیں، خوابوں کی دلیلیں مت دے
خواب تعبیر کے دامن میں سماتا ہی نہیں

یوں بھی ہوتا ہے مرے دوست، نئی بات نہیں
اس پہ ہم جان گنوا دیں جو کبھی تھا ہی نہیں
 
 

Wednesday, October 10, 2012

رخصتی

رخصتی

بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے
کہ اپنے بیچ کا رشتہ
شعوروعقل سے کچھ ماورا سا ہے!
کہ اپنی زندگی اب بھی
اسی آنگن میں بیٹھی ہے
جہاں پہلی دفعہ ہم نے
بہت حیران آنکھوں سے
یہ دنیا داری دیکھی تھی
اسی آنگن کی مٹی میں
لگا وہ نیم کا پودا
ہمیں اب بھی بتاتا ہے
کہ اس کی شاخ کے جھولے پہ کس بچے کی باری ہے
وہیں پر جابجا بکھرا ہے اپنا بھولپن، بچپن
جو راتوں کی خموشی میں
کبھی قصے سناتا ہے
کبھی جگنو پکڑتا ہے
کبھی تاروں کے جھرمٹ میں
کسی مصنوعی سیّارے کا پیچھا کرتا جاتا ہے
کبھی جادوئی لہجے میں بتاتا ہے
کہ وہ جو "ڈوئی" کی صورت
نظر آتے ہیں کچھ تارے
وہی تو دبِّ اکبر ہے
جوانی اور بڑھاپے میں
قدم رکھیں تو سوچیں بھی
کہ اب ہم نے بچھڑنا ہے!!!
تمہاری "رخصتی" یا "الوداعی" کو میں کیا مانوں!!!؟
میں تو اب تک تمہارے ساتھ گا ٔوں کی اسی نکّڑ پہ بیٹھا ہوں
جہاں پر تعزیوں کی "کجّیاں" اور "ٹھوٹھیاں" تقسیم ہوتی ہیں
جہاں پر دودھ بٹتا ہے
بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے!

Thursday, October 4, 2012

جانے عدم کے دیس میں کیسی کشش ہے دوست

جانے عدم کے دیس میں کیسی کشش ہے دوست 
جو بھی گیا ادھر کو وہ پلٹا نہیں کبھی

مشتِ غبار  و خاک ہیں اپنی بساط کیا
ہم ہیں ہوا کے دوش پہ جب تک ہوا چلے

Monday, October 1, 2012

عکس بے جرم مار کھاتا ہے


سنگ تو آئینے کے در پہ پے
عکس بے جرم مار کھاتا ہے

اس شعر کا خالق (حافظ اقبال شاہین) جناح ہسپتال لاہور کے کینسر ایمرجنسی وارڈ میں صاحب فراش ہے، زنگی لمحہ لمحہ ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے، اس حیات و ممات کے کھیل سے میں بہت حیران ہوں-

مرے یارو، سمجھدارو، کوئی تدبیر تو ہوگی
وہ دنیا چھوڑے جاتا ہے اسے واپس بلانا ہے
زیادہ تو نہیں ماگا، فقط اتنی سی خواہپش ہے
محبت کی صدائوں کو خموشی سے بچانا ہے
(ریحان)