Wednesday, October 10, 2012

رخصتی

رخصتی

بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے
کہ اپنے بیچ کا رشتہ
شعوروعقل سے کچھ ماورا سا ہے!
کہ اپنی زندگی اب بھی
اسی آنگن میں بیٹھی ہے
جہاں پہلی دفعہ ہم نے
بہت حیران آنکھوں سے
یہ دنیا داری دیکھی تھی
اسی آنگن کی مٹی میں
لگا وہ نیم کا پودا
ہمیں اب بھی بتاتا ہے
کہ اس کی شاخ کے جھولے پہ کس بچے کی باری ہے
وہیں پر جابجا بکھرا ہے اپنا بھولپن، بچپن
جو راتوں کی خموشی میں
کبھی قصے سناتا ہے
کبھی جگنو پکڑتا ہے
کبھی تاروں کے جھرمٹ میں
کسی مصنوعی سیّارے کا پیچھا کرتا جاتا ہے
کبھی جادوئی لہجے میں بتاتا ہے
کہ وہ جو "ڈوئی" کی صورت
نظر آتے ہیں کچھ تارے
وہی تو دبِّ اکبر ہے
جوانی اور بڑھاپے میں
قدم رکھیں تو سوچیں بھی
کہ اب ہم نے بچھڑنا ہے!!!
تمہاری "رخصتی" یا "الوداعی" کو میں کیا مانوں!!!؟
میں تو اب تک تمہارے ساتھ گا ٔوں کی اسی نکّڑ پہ بیٹھا ہوں
جہاں پر تعزیوں کی "کجّیاں" اور "ٹھوٹھیاں" تقسیم ہوتی ہیں
جہاں پر دودھ بٹتا ہے
بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے!

No comments:

Post a Comment