Saturday, October 20, 2012

ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

ایک ہی زخم سے تڑپا کرے کب تک کوئی
ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

جب یہ طے ہے کہ اب اس قید میں گزرے گی حیات
سر کا دیوار سے جھگڑا کرے کب تک کوئی

مرحلہ درد کا بس آہ کے بھرنے تک ہے
درد کا ماتم و گریہ کرے کب کوئی

اب وہ رفتار ہے دل کی نہ موافق حالات
خواہ مخواہ عشق کا رسوا کرے کب تک کوئی

وہ مجھے پیار سے شہزادہ کبھی چاند کہے
وہ ہے پاگل اسے ٹوکا کرے کب تک کوئی

گویا جنت سے بھی مشکل ہے قیام جنت
یعنی گندم سے کنارہ کرے کب تک کوئی

1 comment: