ایک ہی زخم سے تڑپا کرے کب تک کوئی
ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی
جب یہ طے ہے کہ اب اس قید میں گزرے گی حیات
سر کا دیوار سے جھگڑا کرے کب تک کوئی
مرحلہ درد کا بس آہ کے بھرنے تک ہے
درد کا ماتم و گریہ کرے کب کوئی
اب وہ رفتار ہے دل کی نہ موافق حالات
خواہ مخواہ عشق کا رسوا کرے کب تک کوئی
وہ مجھے پیار سے شہزادہ کبھی چاند کہے
وہ ہے پاگل اسے ٹوکا کرے کب تک کوئی
گویا جنت سے بھی مشکل ہے قیام جنت
یعنی گندم سے کنارہ کرے کب تک کوئی
:), wah!
ReplyDelete