Wednesday, July 31, 2013

زند گی اب رفو نہیں ہو گی

قبر تک آ گئے گٹھڑی سی اٹھائے سر پر
زندگی ہم نے تجھے پھول کے دیکھا ہی نہیں

کچھ خرابی ضرور ہے اس میں
زندگی راس کیوں نہیں آتی

سینکڑوں لاکھوں چھید ہیں اس میں 
زند گی اب رفو نہیں ہو گی

اس قدر غم ہے پھر بھی زندہ ہوں
یہ بھی کچھ معجزے سے کم تو نہیں

Tuesday, July 23, 2013

بعد ازاں رزق اٹھ گیا دل کا

جب تلک آنکھ بے بصیرت تھی
زندگی کافی خوبصورت تھی

عشق اس کا تھا خواہشوں سے اٹا
اور مجھے خواہشوں سے نفرت تھی

بعد ازاں رزق اٹھ گیا دل کا
وہ مری آخری محبت تھی

پیاز کی طرح چھیلتے ہی گئے
زندگی جستجو کی حیرت تھی

Monday, July 22, 2013

ہاں یہی سچ ہے سو کہنے میں تامل کیسا

ہاں یہی سچ ہے سو کہنے میں تامل کیسا
 میں تجھے بھول چکا بھول چکا بھول چکا

سو کہا سنا معاف کر دیا کیجیے

جسم و ذہن کا فاصلہ

جہاں میں ہو تا ہوں
وہاں پہنچنے میں کئی سال سگتے ہیں مجھے
اور جب پہنچتا ہوں تو وہاں  میں ہوتا نہیں
سو کہا سنا معاف کر دیا کیجیے

Friday, July 19, 2013

چاند جاگے ہے رات بھر تنہا

راستے منزلیں سفر تنہا
دھول اور دھوپ اور شجر تنہا

کیسا منظر ہے میرے چاروں طرف
لاکھوں اجسام ہیں مگر تنہا

رات کروٹ بدل کے سوتی رہے
چاند جاگے ہے رات بھر تنہا

روز خوابوں میں دعوتیں بھیجیں
منزلیں بھی ہیں کس قدر تنہا

ریت کے ذرے پاوں سے لپٹیں
"کہیں مت جانا چھوڑ کر تنہا"





Monday, July 15, 2013

درد رہنے لگا ہے اب سر میں

پہلے تیرا خیال رہتا تھا
درد رہنے لگا ہے اب سر میں

Sunday, July 14, 2013

بڑی کوفت ہے جینے میں

خالی خآلی سا 
خالی برتن ہے
کچھ بھی نہیں ہے سینے میں
سانس بھی لگتی 
ہے مشقت اب
بڑی کوفت ہے جینے میں

آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

ایسا لگتا ہے کوئی دشت ہوں بے آب و گیاہ
یا خلائوں کا اندھیرا ہوں خموش اور سیاہ

یا کوئی قبر ہوں بے نام و پتہ لاش لیے
یاکوئی زخمی ہوں تکلیف نہ آرام جسے

یا وہ تارہ ہوں جو لپکا ہو زمیں کی جانب
اور رستے میں ہی رستے کی نذر ہو گیا ہو

یا وہ رہرو ہوں کہ جو شوقِ سفر سے سر شار
اپنی منزل کہیں راہوں میں ہی چھوڑآیا ہو

کبھی لگتا ہے کہ میں ہوں کبھی لگتا ہے نہیں
کوئی سایہ ہوں جو چھپتا پھرے سورج سے سدا

مختصر یہ کہ عجب کشمکشِ زیست ہے آج
آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

وہ بھی اب عام ہوئے تھے جو کبھی خاص الخواص

وہ بھی اب عام ہوئے تھے جو کبھی خاص الخواص
زندگی سے تو بھروسہ ہی مرا اٹھ گیا اب

Thursday, July 11, 2013

تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

چشم و لب و شباب کی چاہت ہی چھوڑ دی
محبوب اور شراب کی عادت ہی چھوڑی دی

اک کشمکش سی رہتی تھی سوچوں میں رات دن 
تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

کل مل کے رو پڑی مجھے تنہائی اور کہا
جائوں کہاں کہ یاروں نے مہلت ہی چھوڑی دی

جنگل میں لاکھ عیب ہوں آزادیاں تو تھیں
تہذیب کے غلاموں نے فطرت ہی چھوڑی دی

بس فیکٹری کے پرزے ہیں گھستے ہیں روزوشب
لوگوں نے زندگی کی حرارت ہی چھوڑ دی

تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑ دی

اک کشمکش سی رہتی تھی آٹھوں پہر ہمیں 
تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑ دی

Wednesday, July 10, 2013

خود اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک آئو نا!

ہماری ذات بجھی راکھ کے برابر ہے
نہ جس سے ہاتھ جلیں اور نہ روشنی پھیلے

الٹ پلٹ کے ہمیں کچھ نہیں ملے گا تمہیں
خود اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک آئو نا!

Sunday, July 7, 2013

یہ بھی ہو سکتا ہے مذہب خوف کا ہی فلسفہ ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے رب ہو اور سب کچھ دیکھتا ہو
یہ بھی ہو سکتا ہے مذہب خوف کا ہی فلسفہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے دنیا کائیناتی حادثہ ہو
یہ بھی ہو سکتا ہے شاید حادثہ اک تجربہ ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے جنت نیک کاموں کی جزا ہو
یہ بھی ہوسکتا ہے جنت حسرتوں کاتخلیہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے روحیں وقت سے باہر پڑی ہوں
اور وقت اپنے ازل سے اور ابد سے ماورا ہو

یہ بھی ہوسکتا ہے روحیں اینٹ پتھر کی طرح ہوں
سوچنا اور دیکھنا بس جسموں کا ہی مشغلہ ہو

یہ بھی ہو سکتا ہے ہم سب جسم واحد کے حصص ہوں
جینا مرنا انقسامِ اندروں کا سلسلہ ہو

ربا جیت گیا تو اور ہار گیا میں

مظلوم کے حق میں بہت لڑا  میں لیکن آخر
ربا جیت گیا تو اور ہار گیا میں

ہم تو رب سے ہارے

دھوپ ہے شعلوں سی
چھاوں ہے کیکر کی

عشق ہے سودائی

---------

پینگ ست رنگوں کی
آسماں پرجھولے 

حسن ہے پرچھائیں

-----------

کس نے چھو کر دیکھا
پیار اور جذبوں کو

رشتے ہیں مفروضے

---------

قسمتیں ڈوریں  سی
اور ہم پتلی سے

بے ارادہ ناچیں

----------------

زندگی چلتی ہے 
جسموں جسموں پیہم

موت ہے افسانہ

----------------

گھونسلہ چیلوں کا
بچے ہیں بلبل کے

ہم تو رب سے ہارے

دل پہ بوجھ کیا رکھیں ، ہم تو خود پہ بھاری ہیں

خاک سے ملے تھے ہم - خاک میں ملے آخر
آنکھوں کو ہی خوابوں سے ہو گئے گلے آخر

کھودنا پہاڑوں کا عادتِ جنوں پیشہ
مجنووں کو وحشت سے کیا ملے صلے آخر

عشق ہو کہ نفرت ہو، دل پہ بوجھ ہیں دونوں
دل پہ بوجھ کیا رکھیں ، ہم تو خود پہ بھاری ہیں

ہم اپنے ہاتھوں سے خود اپنے پنکھ کاٹ آئے

قفس میں بند کرو یا ہمیں کھلا چھوڑو
ہم اپنے ہاتھوں سے خود اپنے پنکھ کاٹ آئے

نگاہ  وجسم کجا روح تک غلام ہوئی
کچھ ایسی قید ہے اب موت بھی چھڑا نہ سکے


---------------------------


تعمیر ہو سکے نہ ہی مسمار ہو سکے
پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی تھی رکھی بھی خود ہی تھی

خوابوں کے پیرہن میں تھی خواہش چھپی ہوئی
دل جس کو کہہ رہے تھے ہوس کا سفیر تھا

Thursday, July 4, 2013

اور اس لڑائی کا خمیازہ عمر بھر بھگتا

بس ایک بار لڑے تھے نصیب سے اپنے
اور اس لڑائی کا خمیازہ عمر بھر بھگتا

گر زندگی یہی ہے تو اس زندگی پہ خاک

سر پٹ بھگائے جاتی ہیں مجبوریاں ہمیں
کچھ پل کو سانس روک لوں اتنی مجال کیا

گر زندگی یہی ہے تو اس زندگی پہ خاک

Tuesday, July 2, 2013

پس اب حوالہ تقدیر کر دیا خود کو

میں بھاگ بھاگ کے اکتا گیا تھا تھک گیا تھا
پس اب حوالہ تقدیر کر دیا خود کو

Monday, July 1, 2013

چاند سورج زمیں ہیں چکرائے


سیدھی رہ سے بھٹک گیا قصدا
میری فطرت میں ہی بغاوت تھی

زندگی انتخاب کم نظراں
مجھ کو بے مائیگی سے نفرت تھی

دل میں اب کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں
وہ مری آخری محبت تھی


----------------------------------

چاند سورج زمیں ہیں چکرائے
وقت کا راز ان سے باہر ہے