Sunday, July 14, 2013

آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

ایسا لگتا ہے کوئی دشت ہوں بے آب و گیاہ
یا خلائوں کا اندھیرا ہوں خموش اور سیاہ

یا کوئی قبر ہوں بے نام و پتہ لاش لیے
یاکوئی زخمی ہوں تکلیف نہ آرام جسے

یا وہ تارہ ہوں جو لپکا ہو زمیں کی جانب
اور رستے میں ہی رستے کی نذر ہو گیا ہو

یا وہ رہرو ہوں کہ جو شوقِ سفر سے سر شار
اپنی منزل کہیں راہوں میں ہی چھوڑآیا ہو

کبھی لگتا ہے کہ میں ہوں کبھی لگتا ہے نہیں
کوئی سایہ ہوں جو چھپتا پھرے سورج سے سدا

مختصر یہ کہ عجب کشمکشِ زیست ہے آج
آج یکسر میں محبت سے نکل آیا ہوں

No comments:

Post a Comment