قفس میں بند کرو یا ہمیں کھلا چھوڑو
ہم اپنے ہاتھوں سے خود اپنے پنکھ کاٹ آئے
نگاہ وجسم کجا روح تک غلام ہوئی
کچھ ایسی قید ہے اب موت بھی چھڑا نہ سکے
---------------------------
تعمیر ہو سکے نہ ہی مسمار ہو سکے
پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی تھی رکھی بھی خود ہی تھی
خوابوں کے پیرہن میں تھی خواہش چھپی ہوئی
دل جس کو کہہ رہے تھے ہوس کا سفیر تھا
No comments:
Post a Comment