Thursday, July 11, 2013

تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

چشم و لب و شباب کی چاہت ہی چھوڑ دی
محبوب اور شراب کی عادت ہی چھوڑی دی

اک کشمکش سی رہتی تھی سوچوں میں رات دن 
تنگ آئے اس قدر کہ محبت ہی چھوڑی دی

کل مل کے رو پڑی مجھے تنہائی اور کہا
جائوں کہاں کہ یاروں نے مہلت ہی چھوڑی دی

جنگل میں لاکھ عیب ہوں آزادیاں تو تھیں
تہذیب کے غلاموں نے فطرت ہی چھوڑی دی

بس فیکٹری کے پرزے ہیں گھستے ہیں روزوشب
لوگوں نے زندگی کی حرارت ہی چھوڑ دی

No comments:

Post a Comment