Saturday, April 26, 2014

ہم بھی رہتے تھے کبھی روح کی سرشاری میں

وقت کی پہرے دار سوئی سے
بچ بچا کر نکلنا پڑتا ہے

کتنا مشکل ہے خود سے ملنا بھی


میرے چاروں طرف ہے وقت کھڑا
تجھ تک آنے کا کوئی رستہ نہیں

ہم بھی رہتے تھے کبھی روح کی سرشاری میں
روزی روٹی نے فقط جسم کا کر کے چھوڑا

اصل میں دونوں ہیں خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

ہوس کا نام ہے بدنام عشق مومن ہے
اصل میں دونوں ہیں خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

ہیں دونوں اصل میں  خواہش کے گھر کے پالے ہوئے

اصل میں ص ساکن ہے

Thursday, April 24, 2014

اب تک نبھا رہا میں رشتہ وہ جھوٹ کا

اک بار خوہشات سے مغلوب نفس نے
چوما تھا اس کو عشق و محبت کے نام پر
اب تک نبھا رہا میں رشتہ وہ جھوٹ کا

Tuesday, April 22, 2014

تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور

تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور
تم بہت مختلف ہو دنیا سے

Monday, April 21, 2014

دل نہ مانے تو واہگہ چلیے

ایک سی "تانگ" دونوں کے دل میں
ہم اُدھر کے ہیں وہ اِدھر کے ہیں
اس طرح دیکھیں لوگ بارڈر کو
جیسے پنچھی قفس کی دیواریں
حسرت و اشتیاق سے دیکھیں
دل نہ مانے تو واہگہ چلیے

Sunday, April 20, 2014

مہتاب چودھواں ہو کہ شبّاب سولہواں

دل سے اتر نہیں رہا چہرہ وہ پھول سا
پڑنے دے دھوپ عمر کی پھر دیکھنا اسے

مہتاب چودھواں ہو کہ شبّاب سولہواں
بے درد وقت سب کو ہی ماضی میں پھینک دے

غریب باپ ہر آہٹ پہ چونک جاتا ہے

ہوس کے مارے ہوئے اس سماج کے اندر
جوان لڑکی بھی تکلیف دہ خزانہ ہے

غریب باپ ہر آہٹ پہ چونک جاتا ہے

Saturday, April 19, 2014

پھر یوں ہوا

پھر یوں ہوا کہ عشق نے امداد کھینچ لی
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی زمانے سے مل گئے

ملازمہ

جہاں پہ کتوں کی خوراک ڈالروں میں ہے
اسی حویلی میں اک کام کرنے والی ہے

جو بارہ آنے فی گھنٹہ پہ زندگی تولے

Friday, April 18, 2014

مجبوریِ معاش نے اغوا کیا ہمیں

مجبوریِ معاش نے اغوا کیا ہمیں
اے حسن!! ہم بھی تیری گلی کے مکین تھے

Thursday, April 17, 2014

زندگی

یہ ایک بند گلی ہے اور اس کے آخر پر
بس اک سرنگ ہے جو موت پہ ہی کھلتی ہے
!!سو بھاگ دوڑ اضافی ہے جتنی بھی کر لو

Sunday, April 13, 2014

بازار

وہی بازار ہیں جس میں کبھی بند آنکھوں سے
ہم ترے نقشِ کفِ پا پہ چلا کرتے تھے
آج آئے ہیں تو گھر کا بھی پتہ یاد نہیں

ملزم

مریض جن کا ہے ان کا ہے باقی لوگوں کو
بس ایک تماشہِ دردو فغاں میسر ہے
 چراغ جلتے ہیں بجھتے ہیں اور جلتے ہیں


----------------------------------------

پھر کوئی  مر گیا افسوس کرو پھر اک بار
بول دو پھر سے وہی سیکھے سکھائے جملے

"بس یہی حکم تھا رب کا، یہی تقدیر میں تھا
حوصلہ رکھو اٹھو اور سنبھالو خود کو
تم بھی رو و گے تو بچوں کو سنبھالے گا کون
"مان لو رب کی یہی مرضی یہی منشا تھی""

سبھی مظلوموں یتیموں کا وہی ملزم ہے!!!؟؟

Wednesday, April 2, 2014

زندگی بن بلایا مہماں ہے

تیرے لائق تو یہ نہیں پھر بھی
جیسے تیسے گزار دے اس کو
زندگی بن بلایا مہماں ہے



بیساکھ

پھر سے بیساکھ ا گیا ان پر

پھر سے سونا اگل رہے ہیں کھیت
آو دارنتیوں کو گرم کریں

جو زمیں دار ہیں بہت خوش ہیں
کیوں کہ بیٹھے بٹھائے ملتا ہے
کاشت کاروں کا خون پی پی کو
ان کے گھر کا چراغ جلتا ہے

خوشہ چینوں کی ٹولیاں بھی تو ہیں
بھیک منگے فقیر اور پنچھی

روز کے روز اپنا پیٹ بھریں


پھر سے بیساکھ ا گیا ان پر
پھر سے سونا اگل رہے ہیں کھیت
آو دارنتیوں کو گرم کریں