Wednesday, December 26, 2012

ریت کو سونا بنانے کی یہ ضد چھوڑ بھی دے

ریت کو سونا بنانے کی یہ ضد چھوڑ بھی دے
سنگ پہ گھاس اگانے کی یہ ضد چھوڑ بھی دے
تو گلاب آنکھوں پہ باندھے ہوئے گھر سے نکلا
دھول کو پھول بتانے کی یہ ضد چھوڑ بھی دے
وہ ترا عشق نہیں عشق کی محرومی ہے
داغ سے داغ مٹانے کی یہ ضد چھوڑ بھی دے

Thursday, October 25, 2012

اس محبت نے وراثت کی طرح بانٹ دیا

جانے کس کس کو ملا کتنا مجھے علم نہیں
اس محبت نے وراثت کی طرح بانٹ دیا
مر گیا مجھ میں ہی جب میری کہانی کا پلاٹ
خود کو پھر مالِ غنیمت کی طرح بانٹ دیا

Saturday, October 20, 2012

میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

یہ سمجھ کر یہ مرے ہیں، کہ مری آنکھ میں ہیں
میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

ایک ہی زخم سے تڑپا کرے کب تک کوئی
ایک ہی درد کو رویا کرے کب تک کوئی

جب یہ طے ہے کہ اب اس قید میں گزرے گی حیات
سر کا دیوار سے جھگڑا کرے کب تک کوئی

مرحلہ درد کا بس آہ کے بھرنے تک ہے
درد کا ماتم و گریہ کرے کب کوئی

اب وہ رفتار ہے دل کی نہ موافق حالات
خواہ مخواہ عشق کا رسوا کرے کب تک کوئی

وہ مجھے پیار سے شہزادہ کبھی چاند کہے
وہ ہے پاگل اسے ٹوکا کرے کب تک کوئی

گویا جنت سے بھی مشکل ہے قیام جنت
یعنی گندم سے کنارہ کرے کب تک کوئی

یوں بھی ہوتا ہے مرے دوست، نئی بات نہیں

یہ تو بس زعم ہے اس کا دل کا کہ جاتا ہی نہیں
بات اتنی سی ہے وہ شخص مراتھا ہی نہیں

چاند اور چاند بھی پھر عید کا ابرآلود فضا
وصل تو وصل اسے ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں
 خواب بس خواب ہیں، خوابوں کی دلیلیں مت دے
خواب تعبیر کے دامن میں سماتا ہی نہیں

یوں بھی ہوتا ہے مرے دوست، نئی بات نہیں
اس پہ ہم جان گنوا دیں جو کبھی تھا ہی نہیں
 
 

Wednesday, October 10, 2012

رخصتی

رخصتی

بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے
کہ اپنے بیچ کا رشتہ
شعوروعقل سے کچھ ماورا سا ہے!
کہ اپنی زندگی اب بھی
اسی آنگن میں بیٹھی ہے
جہاں پہلی دفعہ ہم نے
بہت حیران آنکھوں سے
یہ دنیا داری دیکھی تھی
اسی آنگن کی مٹی میں
لگا وہ نیم کا پودا
ہمیں اب بھی بتاتا ہے
کہ اس کی شاخ کے جھولے پہ کس بچے کی باری ہے
وہیں پر جابجا بکھرا ہے اپنا بھولپن، بچپن
جو راتوں کی خموشی میں
کبھی قصے سناتا ہے
کبھی جگنو پکڑتا ہے
کبھی تاروں کے جھرمٹ میں
کسی مصنوعی سیّارے کا پیچھا کرتا جاتا ہے
کبھی جادوئی لہجے میں بتاتا ہے
کہ وہ جو "ڈوئی" کی صورت
نظر آتے ہیں کچھ تارے
وہی تو دبِّ اکبر ہے
جوانی اور بڑھاپے میں
قدم رکھیں تو سوچیں بھی
کہ اب ہم نے بچھڑنا ہے!!!
تمہاری "رخصتی" یا "الوداعی" کو میں کیا مانوں!!!؟
میں تو اب تک تمہارے ساتھ گا ٔوں کی اسی نکّڑ پہ بیٹھا ہوں
جہاں پر تعزیوں کی "کجّیاں" اور "ٹھوٹھیاں" تقسیم ہوتی ہیں
جہاں پر دودھ بٹتا ہے
بہت کچھ سوچ کر میں نے
فقط اتنا ہی سوچا ہے!

Thursday, October 4, 2012

جانے عدم کے دیس میں کیسی کشش ہے دوست

جانے عدم کے دیس میں کیسی کشش ہے دوست 
جو بھی گیا ادھر کو وہ پلٹا نہیں کبھی

مشتِ غبار  و خاک ہیں اپنی بساط کیا
ہم ہیں ہوا کے دوش پہ جب تک ہوا چلے

Monday, October 1, 2012

عکس بے جرم مار کھاتا ہے


سنگ تو آئینے کے در پہ پے
عکس بے جرم مار کھاتا ہے

اس شعر کا خالق (حافظ اقبال شاہین) جناح ہسپتال لاہور کے کینسر ایمرجنسی وارڈ میں صاحب فراش ہے، زنگی لمحہ لمحہ ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے، اس حیات و ممات کے کھیل سے میں بہت حیران ہوں-

مرے یارو، سمجھدارو، کوئی تدبیر تو ہوگی
وہ دنیا چھوڑے جاتا ہے اسے واپس بلانا ہے
زیادہ تو نہیں ماگا، فقط اتنی سی خواہپش ہے
محبت کی صدائوں کو خموشی سے بچانا ہے
(ریحان)

Monday, September 24, 2012

لو دل کی نقدی خرچ ہوئی

اب اپنی کی نقدی خرچ ہوئی
اب بازاروں کا چکر کیا
اب روپ سروپ سے مالا مال
یہ خواب پریت کے ہر کارے
بھلا کاہے ہم کو چھیڑتے ہیں
ان ٹھیکری جیسی آنکھوں میں
نہ خواب اگیں نہ دید کھلے
اب ششدر بے کل سی نظری
ہر آتے جاتے چہرے میں
بس عدم کا رااہی ڈھونڈتی ہیں

Monday, September 17, 2012

دل و نظر تری چوکھٹ سے باندھ آیا ہوں

وہ میرے ہاتھ میں آیا ہے خوشبوئوں کی طرح
وہ میرا ہو کے بھی مجھ تک نہ رہ سکے گا کبھی

دل و نظر تری چوکھٹ سے باندھ آیا ہوں
مگر یہ جسم کہ منصف کے پاس گروی ہے

Monday, September 3, 2012

اور کوڑی میں بھی بکتے نہیں محبوب یہاں

کس قدر مہنگی ہے خوابوں کی مسافت اے دوست
کس قدر سستی ہے تعبیر اگر مل جائے

ہائے جس شکل کو تاروں میں کہیں ڈھنونڈتے تھے
وہ میرے پائوں میں بیٹھی تھی پکڑ کر کاسہ

اس کو معلوم نہ تھا اس کا دریدہ سا بدن
دو جہانوں سے بھی افضل تھا مرے دل کے لیے

اور وہ میلی کچیلی سی قبائے بے رنگ
کہکشائوں سے بھی پیاری تھی مری آنکھوں کو

میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ پتھر سی نگہ
نہ کسی دل نہ کسی عشق سے کچھ واقف تھی

اس کی اکتائی ہوئی سانسوں میں مرنے کی طلب
اس کے بیزار سے چہرے پہ لکھا تھا روٹی

میں نے اک چپت لگائی وہیں اپنے دل پر
اور اس کاسے میں کچھ سکے گرا کر بے تاب


لوٹ آیا کسی ہارے ہوئے جنگجو کی طرح
!!پھر کسی خواب کی  ناکام تمنائوں میں


حسن جو آنکھ کے اندر ہے وہ منظر میں کہاں
مول جو عشق لگاتا ہے وہ دل ہی جانے

ورنہ مٹی میں ملا دیتی ہے دنیا سب کو
اور کوڑی میں بھی بکتے نہیں محبوب یہاں

بس ایک خوف سے میں اس کو ہار آیا ہوں

بس ایک خوف سے میں اس کو ہار آیا ہوں
کہ میرا سیلِ مصائب اسے ڈبو دے گا

ہمارے ہاتھ میں آیا تھا چاند بھی اک دن
مگر نصیب کو ہر گز نہ یہ گوارا ہوا

Sunday, September 2, 2012

مگر میں کیا کروں میرے گنہ زیادہ ہیں

       
تو میرے واسطے جنت ہے باخدا جنت
مگر میں کیا کروں میرے گنہ زیادہ ہیں!
ہر ایک روز تو پہلے سے بڑھ کے پیارا لگا
اب سے بڑھ کے بھلا اعتراف کیا ہوگا

Friday, August 31, 2012

جننت

تو ہے جنت یقین ہے ہم کو
اور جننت ملے گی مر کر ہی

Monday, August 27, 2012

اس سے بہتر بھی محبت کے تراجم ہوں گے

 اس سے بہتر بھی محبت کے تراجم ہوں گے
مجھ سے پوچھے تو تری آنکھ کی گہرائی ہے

Saturday, August 11, 2012

درد بدر بھٹکا پھروں لے کے یہ سینہ خالی

ساری دنیا بھی اٹھا لایا مگر یہ نہ بھرا
یوں ترے بعد ہوا حسن کا پلڑا خالی
اب وہاں کس کو رکھوں رب جہاں رہتا تھا کبھی
درد بدر بھٹکا پھروں لے کے یہ سینہ خالی

Friday, August 10, 2012

ڈکٹر عزیز فیصل صاحب کی سالگرہ پر، ہدیہِ مخول


ڈکٹر عزیز فیصل صاحب کی سالگرہ پر، ہدیہِ مخول

وہ جو افریقہ کے جنگل سے گزر آاتے ہیں
زکر بیگم کا کیا جائے تو ڈر جاتے ہیں

مارتے رہتے ہیں اسکول میں جو بچوں کو
ہیں وہ استاد زنانی سے جو کٹ کھاتے ہیں

میں نے دیکھے ہیں مقدر کے دھنی بھی ایسے
نام زرداری ہے بیگم کا دیا کھاتے ہیں

صنفِ نازک کو تو معشوق کہا کرتے تھے
عاشق اعوان بھی اس صنف میں اب آتے ہیں

چھیل لیتے ہیں کسی طور سے آلو فیصل
پیاز آتا ہے تو بے ساختہ رو پڑتے ہیں

ریحان

Wednesday, August 8, 2012

مجھے تم سے بغاوت سیکھنی ہے

  1.      مرے مرشد ولایت سیکھنی ہے
        ہر اِک دل پر حکومت سیکھنی ہے

        اگر اب ملنے آئے، یاد رکھنا
        مجھے تم سے بغاوت سیکھنی ہے
    ادریس آزاد کے لیے :)

Wednesday, August 1, 2012

ہزار نام ہیں میرے ہزار چہرے ہیں

بکھر گیا ہوں میں کچھ ایسے جا بجا اے دوست
ہزار نام ہیں میرے ہزار چہرے ہیں

دلِ ناداں تری لغزش کے ازالے کے لیے

اپنی محمرومی کا احساس مٹانے کے لیے
کتنے کھلتے ہوئے پھولوں کو مسل آیا ہوں

دلِ ناداں تری لغزش کے ازالے کے لیے
اپنے پیروں سے ہی میں خٔود کو کچل آیا ہوں

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے مر چکے ہیں ہم

بظاہر ایسے لگے ترک کر چکے ہیں ہم
در اصل تیری محبت سے ڈر چکے ہیں ہم

تمہارے ہجر کی محرومیاں مٹانے کو
نجانے کتنی دفعہ عشق کر  چکے ہیں ہم

اب اس قدر ہے زمانے سے اجنبیت سی
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے مر چکے ہیں ہم

تمہارے کوچے کی یہ خاک پھانکنے کے لیے
یقین مان فلک سے اتر چکے ہیں ہم

اگر وہ آئے تو جائیں مجتمع پھر سے
اگرچہ سچ ہے کہ ہر جا بکھر  چکے ہیں ہم

Monday, July 30, 2012

کچھ نہیں ہے سرِ ساحل ، اب ذرا خاک پہ آ

چھوڑدے تاروں کی محفل،  ذرا اب خاک پہ آ
موڑ لا بھٹکا ہوا دل،  ذرا اب خاک پہ آ
ہائے افسوس کہ پھر سے وہی پتھر ہے خدا
پھر وہی سر، وہی قاتل ،  ذرا اب خاک پہ آ
خواب زاروں میں پری وش بھی تھے مہ رو بھی تھے
کھل گئی آنکھ مرے دل ،  ذرا اب خاک پہ آ
حسرت و یاس کی موجوں نے تجھے پھینک دیا
کچھ نہیں ہے سرِ ساحل ،  ذرا اب خاک پہ آ

Sunday, July 29, 2012

طنزیہ تک بندی


ربّا مرے لوگوں کو، اب دیدہ ِ بینا دے
اس بار الیکشن میں، کچھ کام کا بندہ دے

کیوں شاکی ہے قسمت کا ، کیوں کوسے بھلا خود کو؟
بگڑے ہوئے بیٹے کو شادی کا طمانچہ دے

رحمان ملک جیسے بیکار نہیں ہوتے
دو سینگ لگا سر پر، سرکس کا تماشا دے

زرداری کے چالے ہیں، دستی ہو کہ راجہ ہو
اس ہاتھ نکما لے، اس ہاتھ نکما دے

اس قوم کے کھوپڑ میں، کچھ بھی نہیں بھوسا ہے
گیلانی کو گھر بھیجو، گیلانی کا بیٹا دے

اینکر بھی ہے سرکاری، ٹی وی بھی ہے سرکاری
اک ڈگڈگی والا ہے، بندر کا تماشا دے

سحری میں بھی پیتا ہے، روزے میں بھی پیتا ہے
مدہوشی کا عالم ہے، کیا رائے "چراہا" دے

Saturday, July 28, 2012

ہر بار آئینے میں نیا اجنبی ملے

میں ذہر پی کے آیا ہوں چاہت کے جام سے
کل رات سے وجود میں ایک آگ سی جلے

ایسے الٹ پلٹ ہیں مری ذات کی تہیں
ہر بار آئینے میں نیا اجنبی ملے

خود کو میں بانٹتا پھروں صدقے کے مال سا
کوئی قبول کر لے تو کوئی جھٹک بھی دے

میری محبتیں بھی مرے دین کی طرح
فرقوں میں بٹ گئی ہیں خدارا سمیٹ لے

گڈ مڈ سا ہو گیا ہے نظامِ وفا و عشق
دل میں کوئی بسے ہے تو گھر میں کوئی بسے!

Friday, July 27, 2012

لب ہیں خاموش کہ گستاخی نہ ہوجائے کہیں

ایک تو پوچھے بنا پھینک دیا دنیا میں
دوسرا خود کو بنا رکھا ہے گورکھ دھندا
اتنے فرقے ہیں کہ گنتی میں نہیں آسکتے
کون سے دین کو حق سمجھے یہ تیرا بندہ

اندھی تقلید ہے ایمان کی شرط اول
آنکھیں کرتی ہیں سولات کدھر جائیں ہم
لب ہیں خاموش کہ گستاخی نہ ہوجائے کہیں
خوف ہی خوف کے عالم میں نہ مر جائیں ہم

Wednesday, July 25, 2012

سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

تجھ کو تو یہ گلہ ہے کہ تیرا نہیں رہا
چھو کر کبھی توْ دیکھ کہ میں تھا نہیں رہا

دیکھوں تو چار سمت ہے حلقہِ دوستاں
سوچوں تو اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

ہر شخص ڈھونڈتا ہے فقط آئینہ یہاں
میں آشکار کیا ہوا اس کا نہیں رہا

دل کی تو تھپکیاں تھیں محبت بڑھانے تک
اب مسئلہ ہمارا ہے دل کا نہیں رہا

مجھ کو تلاشِ یزداں کی ضد تھی جنون تھا
اتنا بھٹک گیا کہ کہیں کا نہیں رہا

راہِ سلوک ملتی نہیں عقل کے طفیل
حجت میں پڑ گئے تو عقیدہ نہیں رہا


Monday, July 23, 2012

نگاہیں رستے سے ہٹتیں تو چار بھی ہوتیں

وہ ساتھ ساتھ چلا زندگی کے ہر پل میں
مگر نصیب تو دیکھو، کہ جانتا بھی نہیں
نگاہیں رستے سے ہٹتیں تو چار بھی ہوتیں
سفر کی دھن میں یوں ہی منزلیں گنوا آئے

مگر یہ طے ہے کہ یہ عشق آخری ہوگا

سمیٹ لے گا وہ مجھ کو، یہ جانتا تو نہیں
مگر یہ طے ہے کہ یہ عشق آخری ہوگا

ایسی تنہائی کی عادت ہے

ایسی تنہائی کی عادت ہے کہ اب صحبت یار
شب فرقت کی طرح بوجھ بنی ہے دل پر

جو بھی ملتا ہے ہمیشہ کے لیے ملتا ہے
دل وہ ہرجائی کے بس تازہ محبت چاہے

تیری ذلت بھی ترے ساتھ ہی مر جائے گی

آج ہوئی ہے جو ذلت تو کوئی بات نہیں
آج کا دن بھی گزر جائے گا جیسے تیسے
کچھ ہی برسوں میں سبھی قصہِ ماضی ہوگا
تیری ذلت بھی ترے ساتھ ہی مر جائے گی

یہ ایک ان کہی خود میں بھی جانتا نہیں تھا

میں تنگ آگیا جب اس کے عشق سے اک دن
تو جا کے کہہ دیا "تم سے مجھے محبت ہے"

مجھے خبر تھی یہ اظہار قاتلِ دل ہے
اسی لیے کہا "تم سے مجھے محبت ہے

یہ ایک ان کہی خود میں بھی جانتا نہیں تھا
کہیں سے سن لیا "تم سے مجھے محبت ہے"

یہ بات اب کی نہیں سو براس پرانی ہے
بس آج کہ دیا"تم سے مجھے محبت ہے

Saturday, July 21, 2012

تک بندی "بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے"

انحراف فورم کے 20 جولائ 2012 کے فی البدیہہ طرحی
مشاعرے کے لئے کہی ہوئی میری غزل

اب عشق میں وہ پہلے سے جھگڑے نہیں رہے
کیوں کہ نباہے جانے کے وعدے نہیں رہے

بےزار ہوگئے ہیں محبت کے خواب سے
کیا کیجیے کہ دل پہ بھروسے نہیں رہے

زلت مآب ہو گئے عزت مآب سے
جب سے سخن میں جھوٹ کے پردے نہیں رہے

اس درجہ بے قراری سے مت کھوجیے ہمیں
بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے

رو روہ کے مانگنے سے بھلا کوئی کب ملا
ویسے بھی مانگنے کے زمانے نہیں رہے

قول و قرار سچ ہیں ہیں ترے اشک بھی بجا
لیکن محبتوں کے یہ کلیے نہیں رہے

تیرے خلوص کا ہے یقیں سانس کی طرح
ہے المیہ کہ اب ہمی سچے نہیں رہے

Monday, July 16, 2012

وصال کچھ نہیں جھگڑا ہے زندگی بھر کا

محبتوں کے مراسم میں دوریا ہی بھلی
وصال کچھ نہیں جھگڑا ہے زندگی بھر کا

Friday, July 13, 2012

تک بندی "میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا"



جسموں کے گناہوں کی وکالت نہیں کرتا
میں عشق میں لفظوں کی تجارت نہیں کرتا

اب صاف کہے دیتا ہوں خواہش کا فسانہ
اب عشق کے جذبوں میں خیانت نہیں کرتا

اب جان گیا عشق کا میں مر کزی نکتہ
اب عرض تمنا میں طوالت نہیں کرتا

بس وصل کی چاہت ہے محبت تری کیا ہے
میں ایسی محبت کی حمایت نہیں کرتا

جو حسن کو ٹھہرائے محبت کا کلیسا
میں ایسی شریعت کی اطاعت نہیں کرتا

کچھ لغزشیں ہوتی ہیں خودآپ اپنی نصیحت
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا

ہر ربط کے پیچھے ہے ہوس اور ضرورت
دنیا میں کوئی شخص محبت نہیں کرتا

Monday, July 9, 2012

زندگی اور میں


شرط جینے کی لگائی تھی کبھی زندگی سے
بس اڑا بیٹھا ہوں اس ضد پہ جیے جاتا ہوں
ورنہ دونوں بڑی مشکل میں ہیں اک مدت سے
سانسیں سینے کا بھرم رکھتی ہیں آجاتی ہیں
اپنی عادت سے ہے مجبور دھڑکتا رہے دل
زندگی اور طرف جاتی ہے میں اور طرف
ایک دوجے کو گھسیٹے ہیں کبھی میں کبھی وہ

Sunday, July 8, 2012

اب تو زندہ ہوں فقط نام لگا کر اپنا

تو اب آئی ہے نئے خواب اٹھا کر اے دوست
اب وہ میں ہوں نہ وہ آنکھیں نہ وہ نیندوں کا خمار
اب مری شکل پہ کتبہ ہے کسی اجنبی کا
------------------------------------
میری سانسیں بھی کسی اور کے سینے میں ہیں
میری آنکھوں کی بصارت بھی نہیں ہے میری
اب تو زندہ ہوں فقط نام لگا کر اپنا
--------------------------------------
کوئی آسیب سا لگتا ہے محبت کا خیال
حسن بھی آنکھ کی خواہش کے مطابق نہ ملے
اور سوچوں پہ بھی پہرہ ہے روایات کا اب
بس تضادات کا جنگل سا ہے اب ذات مری
-----------------------------------
تو سمجھتی ہے میں کہقاف کا شہزادہ ہوں
تو نے چاہا ہے مرے اصل سے ہٹ کر مجھ کو
تو مری ذات میں جھانکے گی تو ڈر جائے گا

Saturday, July 7, 2012

تک بندی




ٹوٹ کر بھی فنا نہیں ہوتے
سو قفس سے رہا نہیں ہوتے

ہائے ہم کیا سے کیا نہیں ہوتے
لیکن اس سے جدا نہیں ہوتے

وصل زنجیرِ پا بھی ہوتے ہیں
ہجر زنجیرِ پا نہیں ہوتے

وہ جو آنکھیں ہمیں بہت ہیں پسند
انہی آنکھوں پہ وا نہیں ہوتے

دل کی مرضی جدھر کو لے جائے
ہم تو قصدا جدا نہیں ہوتے

دل وہیں جا کے سر رگڑتا ہے
در جو دستک پہ وا نہیں ہوتے

بے وفائی کی معذرت کے اب
ہم سے وعدے وفا نہیں ہوتے

انگلیوں پر جنہیں شمار کریں
وہ وظیفے دعا نہیں ہوتے

کوئی بت ہو نہ ہو خدا جن میں
ایسے دل دیرپا نہیں ہوتے

ہار ہم بے یقین لوگوں کے
سر تو ہوتے ہیں پا نہیں ہوتے


=========================================
دل ہے رہگزار یاروں کی
رہگزاروں میں گھر نہیں ہوتے



Wednesday, July 4, 2012

پیار دو طرفہ تماشا ہے مرے یار سمجھ

اب کسی عشق و وفا کا کوئی دعوی ہی نہیں
دل وہ بزدل ہے کہیں پائوں جماتا ہی نہیں


ایسے تقسیم کیا ہے مرے رشتوں نے مجھے
کہ اب  آئینہ مری شکل دکھاتا ہی نہیں

سارے کردار ہیں دنیا کے سبھی  منظر ہیں
اپنے افسانے میں اک نام ہمارا ہی نہیں

پیار دو طرفہ تماشا ہے مرے یار سمجھ
یہ وہ ڈھولک ہے   جو اک سمت سے بجتا ہی نہیں

کچھ ہوس عشق میں لازم ہے وگرنہ یہ دل
وصل اور ہجر کی تفریق سمجھتا ہی نہیں

Saturday, June 30, 2012

تک بازی


مجھے سچ ڈھونڈنے کی عادتیں تھیں
زمین و آسماں سے کٹ گیا ہوں

مجھے معیار تنہا کر گیا ہے
میں ہر شے کو مکمل چاہتا ہوں

مجھے معلوم تھی اوقات خواہش
میں اپنے پاس بیتھا رہ گیا ہوں

کہانی مر گئی میری مگر میں
کسی برگد پہ لکھا رہ گیا ہوں

مری محفل میں سورج آگیا ہے
میں جگنو، ہاتھ ملتا رہ گیا ہوں

مرے خوابوں میں جنت کا نشاں تھا
سو تعبروں کا پیاسا رہ گیا ہوں

 میں پہلے لفظ بن کر بولتا تھا
مگر اب صرف لہجہ رہ گیا ہوں

وفور شوق میں خوشبو سے غافل
میں رنگوں سے بہلتا رہ گیا ہوں

تو ہے کم سن تجھے معلوم نہیں کل کا دکھ

تو ہے کم سن تجھے معلوم نہیں کل کا دکھ
صرف تنہائی نظر آئے جہاں تک دیکھوں

لوگ اجسام کے قیدی تھے بہت کمتر تھے

عشق تو عشق ضرورت کے بھی قابل نہ تھا
کوئی محبوب رفاقت کے بھی قابل نہ تھا

لوگ اجسام کے قیدی تھے بہت کمتر تھے
یہ زمانہ مری نفرت کے بھی قابل نہ تھا

میں جسے پوجتا آیا ہوں وہ پتھر کا خدا
آج بولا تو حقارت کے بھی قابل نہ تھا

ہائے وہ خواب کا عالم وہ تخیل کا فسوں
میری بے کارفراغت کے بھی قابل نہ تھا

ہم ہی پاگل تھے وفائوں کا علم لے کے چلے
وہ تو اک لمحے کی چاہت کے بھی قابل نہ تھا

میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

فرض کرکے کہ یہ میرے ہیں مری آنکھ میں ہیں
میں کسی اور کے خوابوں کو غذا دیتا رہا

زندگی گزری ہے اک خواب سے لڑتے لڑتے

اپنی ہی خواہشِ بے تاب سے لڑتے لڑتے
زندگی گزری ہے اک خواب سے لڑتے لڑتے
گھر تو لوٹ آتا ہوں سورج سے بچھڑ کر میں بھی
رات لیکن کٹے مہتاب سے لڑتے لڑتے

تم نے اس دور میں کھولی ہے محبت کی دوکاں

تم نے اس دور میں کھولی ہے محبت کی دوکاں
جب خریدار کو روٹی سے ہی فرصت نہ ملے

ایک ہی دن کا ہے جینا کوئی سو سال جیے

روز اک دن کو الٹ دیتا یوں جیسے تیسے
اور سو جاتا ہوں تھک ہار کے جب شام ڈھلے
صبح دم سر پہ کھڑا ہوتا ہے پھر سے  وہی دن
ایک ہی دن کا ہے جینا کوئی سو سال جیے

سانحہ یہ ہے کہ اب دردمیں چین آتا ہے

بندگی دل کی عبادت سے بھی آگے کی ہے
کہ محبت تو عقیدت سے بھی آگے کی ہے

سانحہ یہ ہے کہ اب دردمیں چین آتا ہے
بات اب درد و اذیت سے بھی آگے کی ہے

Sunday, June 24, 2012

زندگی قرض کے احساس ندامت جیسی

رونقِ حسن ہے باقی نہ کوئی جذبہ دل
زندگی قرض کے احساس ندامت جیسی

ساتھ چلتے ہیں مگر حوصلہ اپنا اپنا
مل کے رہتے ہیں کہ دنیا کی روایت ٹھہری

ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

دل کے نقصاں کا ازالہ بھی نہیں ہو سکتا
زندگی تیرا اعادہ بھی نہیں ہو سکتا

ایسی تنہائی کہ خود سے بھی کبھی مل نہ سکوں
بھیڑ اتنی کہ اکیلا بھی نہیں ہو سکتا

ہائے نفرت  بھی غضب اور ضرورت بھی بہت
ایسے دشمن سے تو جھگڑا بھی نہیں ہو سکتا

یہ رواجوں کی گھٹن قبر سے بڑھ کو محبوس
اور دنیا سے کنارہ بھی نہیں ہو سکتا

بادشہ جس کو بنایا ہے تری چاہت نے
تجھ سے بچھڑا تو کسی کا بھی نہیں ہو سکتا

Tuesday, June 19, 2012

قسم لے لو، وہاں پر کچھ نہیں ہے

 گیا تھا یار کے کوچے کو میں بھی
قسم لے لو، وہاں پر کچھ نہیں ہے

بچھڑ رہے ہیں مگر دل بچھڑنے دیتا نہیں
سو ایک دوجے کو الزام دے رہیں ہم

وہ پیار سمجھے ہے جس کو ہمارا پیشہ ہے

وفا کے نام پہ کرتے ہیں چاکری اس کی
وہ پیار سمجھے ہے جس کو ہمارا  پیشہ ہے

Monday, June 18, 2012

بس ایک رستہ گنہ کا ہی اب نکلتا ہے

صحیح طریقے ہیں جتنے ، قبول عام نہیں
بس ایک رستہ گنہ کا ہی اب نکلتا ہے

تجھے بھی دینی پڑی ہیں وضاحتیں اب تو


تو ہی تو تھا جو کبھی بھی خفا  نہ ہوتا تھا
تجھے بھی دینی پڑی ہیں وضاحتیں اب تو
کئی برس ہوئے تنہائیوں کی عادت ہے
کہ بوجھ لگتی ہیں دل پر رفاقتیں اب تو
وفا کے نام پہ کرتے ہیں چاکری اس کی
محبتیں ہیں اصل میں مشقتیں اب تو
ملازمت کی طرح ہیں محبتیں اب تو

ہم بے ٹھکانہ لوگوں کا نام و پتہ نہ پوچھ


ہمدردی و خلوص کے ذوق و اثر میں ہم
نفرت تک آگئے ہیں وفا کے سفر میں ہم

ہم بے ٹھکانہ لوگوں کا نام و پتہ نہ پوچھ
منزل کو روندھ آئے ہیں شوقِ سفر میں ہم

مہماں نواز ایسے کہ مہمان کے لیے
مہمان بن گئے ہیں خود اپنے ہی گھر میں ہم

رونا تو یہ کہ جس کو سمجھتے تھے دوجہاں
نامعتبر ہوئے ہیں اسی کی نظر میں ہم

مایوس کیوں نہ کرتا یہ صحرائے زندگی
سایہ تلاش کرتے تھے سورج کے گھر میں ہم

آباد تجھ کو کر کے کچھ اجڑے ہیں اس طرح
رشتے بناتے پھرتے ہیں ہر اک نگر میں ہم

Saturday, June 16, 2012

جو تیرے خواب میں آتا ہے بن کے شہزادہ

نظر سے دور ہوا آنکھ سے گیا بھی نہیں
وہ ایک شخص جو میرا کبھی رہا بھی نہیں

میں اس کی یاد لیے زندگی گزار گیا
وہ بے خبر مرے بارے میں جانتا بھی نہیں

جو تیرے خواب میں آتا ہے بن کے شہزادہ
وہ بے نصیب حقیقت میں عام سا بھی نہیں

تو جس کے سامنے حدِ ادب میں رہتا ہے
ترے علاوہ اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں

تو جس کے قرب میں ڈھونڈے علاجِ تنہائی
 وہ خود اکیلا ہے اتنا کہ آئینہ بھی نہیں

تو جس کے خواب لیے مضطرب سا پھرتا ہے
وہ دنیا دار محبت کو مانتا بھی نہیں 

Friday, June 15, 2012

تک بازی - وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

جدید ادبی تنقیدی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ ۱۵ جون ۲۰۱۲ میں پیش کردہ غزل

یہ دشت یہ سورج یہ سماں یاد رہے گا
مر کر بھی دکھوں کا یہ جہاں یاد رہے گا

آغاز نہ انجام نہ موجود کو جانوں
تاعمر بس اک وہم و گماں یاد رہے گا

وہ سامنے آئے بھی تو اغیار کے ہو کر
وہ حیرت و حسرت کا جہاں یاد رہے گا

میں بھول بھی سکتا ہوں تری بات کا مطلب
لیکن ترے لہجے کا بیاں یاد رہے گا

ہم اہل دلِ زار تو قاری ہیں نظر کے
اس آنکھ کا ہر اذنِ نہاں یاد رہے گا

ہمیں یوں بھی گوارا ہے، چلو تم "بے وفا" کہہ لو

میں جس سے عشق کرتا ہوں، وہ پاگل سا ہو جاتا ہے
خدایا میری چاہت میں، نشہ ہے یا کہ پاگل پن؟

اگر تم یہ سمجھتے ہو جدا ہونا یوں آساں ہے
ہمیں یوں بھی گوارا ہے، چلو تم "بے وفا" کہہ لو


بٹ گیا سب تو خریدا چلے آئے ہیں

ڈھل گئی  عمر تو سرکار چلے آئے ہیں
جیب خالی لیے بازار چلے آئے ہیں

حسن تھک ہار کے اب ہو بھی چکا بیگانہ
آپ اب عشق میں سرشار چلے آئے ہیں

محفلیں جب تھی جواں دشت میں جا بیٹھے تھے
چھٹ گیا میلہ تو دربار چلے آئے ہیں

جب تلک پاس تھے کچھ فیصلہ دل سے نہ ہوا
ہجر میں عشق کے آزار چلے ائے ہیں

خود کو جب بانٹتے پھرتے تھے کوئی لیتا نہ تھا
بٹ گیا سب تو خریدا چلے آئے ہیں

عشق کی قلم رو میں دل سے جنگ مت کرنا

عشق کی قلم رو میں دل سے بحث مت کرنا
عقل ہار جائے گی، حسن جیت جائے گا

Monday, June 11, 2012

تک بازی

انحراف ادبی فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ ۸ جون ۲۰۱۲ میں پیش کی گئی کاوشِ
بیاد استاد قمر جلالوی

وہ شخص عشق کر گیا احساں کے ساتھ ساتھ
یعنی کہ زخم دے گیا درماں کے ساتھ ساتھ

ہمدردی کی زبان میں لپٹا ہوا تھا پیار
دل بھی دھڑک دھڑک گیا باتاں کے ساتھ

جذبے بہک رہے ہیں عقیدت کے آس پاس
کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ

مٹی مرے وجود کی بے چین سی رہے
خود کو بھی ڈھونڈتا ہوں میں یزداں کے ساتھ ساتھ

کچھ پر گری ہیں بجلیاں کچھ بجلی کے بغیر
آزاد بھی اداس ہیں رحماں کے ساتھ ساتھ
(ادریس آزاد بھائی اور رحمان حفیظ بھائی کے نام)

یہ عالم خیال ہے کوئی نہ دیکھے گا
کچھ دیر چل کے دیکھیے ریحاں کے ساتھ ساتھ

Tuesday, June 5, 2012

مجذوب بن گئے ہیں جو چادر لپیٹ کر

دربار عشق میں بھی دغابازہیں بہت
مجذوب بن گئے ہیں جو چادر لپیٹ کر

Monday, June 4, 2012

وہ جو صدیوں کی مسافت میں ملا ہے مجھ کو

وہ جو صدیوں کی مسافت میں ملا ہے مجھ کو
کیسے کھو سکتا ہوں لمحوں کی خطا میں اس کو

تجھ کو سینے سے نہیں سر سے لگایا میں نے

تجھ کو سینے سے نہیں سر سے لگایا میں نے
اب مرے عشق پہ خواپش کا تو الزام نہ دھر

Friday, June 1, 2012

تو بھی بھٹکا ہوا پھرتا ہے سرابوں میں کہیں

میں بھی بے جوڑ کسی رشتے کی زد پہ آیا
تو بھی بھٹکا ہوا پھرتا ہے سرابوں میں کہیں
ہم بھی آخر انہی قصوں کا ہی کردار ہوئے
جو پڑھا کرتے تھے بچپن کی کتابوں میں کہیں

Thursday, May 31, 2012

درگزر کرتا ہوں کہ دیتا ہوں چل جانے دے

اپنے آنسو مری آنکھوں سے نکل جانے دے
لگ جا سینے سے مرا درد پگھل جانے دے

اپنے غم خانے میں پھر لوٹ ہی جانا ہے مجھے
خواب کے چند ہی لمحے ہیں بہل جانے دے

دامنِ عشق بھی سب جھاڑ لیا کچھ نہ ملا
لالچِ حسن نہ دے اب تو سنبھل جانے دے

مار ڈالے گا یہ احساسِ زیاں سورج کو
آخری وقت ہے آرام سے ڈھل جانے دے

دل کی مانوں تو بگڑ بیٹھوں زمانے بھر سے
درگزر کرتا ہوں کہہ دیتا ہوں چل جانے دے

میرے مولا مرا ایمان مکمل کر دے

میرے مولا مرا ایمان مکمل کر دے
یا مجھے کفر میں دل کھول کے جی لینے دے
راستہ بیچ کا لگتا ہے بہت ہی مشکل

ہے پیاس اتنی کہ ساگر بھی گھونٹ میں پی لوں

برسنا ہے تو برس جا مری طلب مت پوچھ
ہے پیاس اتنی کہ ساگر بھی گھونٹ میں پی لوں

عشق بھی مرتا ہے انسان کی صورت ہمدم

عشق بھی مرتا ہے انسان کی صورت ہمدم
جسم رہ جاتا ہے اور روح نکل جاتی ہے

ہائے کس زعم میں ہے اب تک تو

کوئی حصہ نہیں جہاں میں ترا
ہائے کس زعم میں ہے اب تک تو

میں نے روکا نہیں مروت میں

میں نے روکا نہیں مروت میں
جان تک آ گئے عزیز مرے

طرب خانہِ دنیا میں کوئی حصہ نہیں میرا

مجھے برباد ہونا ہے، مجھے برباد ہونے دو
مجبت کھینچ لو واپس، مجھے ناشاد ہونے دو
طرب خانہِ دنیا میں کوئی حصہ نہیں میرا
نہ جھوتے خواب دو دشتِ جنوں آباد ہونے دو

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو
بس ایک تم ہی مجھے پھر سے جوڑ سکتے ہو
وگرنہ گردِ زمانہ کو آنکھ میں بھر کر
کچھ ایسے بکھروں گا صحرا میں جابجا اے دوست
مرے وجود کا ذررہ بھی مل نہ پائے گا
سو جس کے ہاتھ لگا جتنا اتنا رکھ لے گا
حریص لوگ مجھے ایسے کاٹ کھائیں گے
کہ جیسے مالِ غنیمت بٹے ہے حصوں میں

میرے ماتھے پہ ترا نام لکھا ہے لیکن

روح صحرا میں بھٹکتی پھرے تنہا تنہا
جسم آلائشِ دنیا کی حراست میں ہے
میرے ماتھے پہ ترا نام لکھا ہے لیکن
زندگی ساری کسی اور کی صحبت میں ہے

خود کو تقسیم کیے پھرتا ہوں ماشہ ماشہ

مجھ پہ جو غیر کا قبضہ ہے چھڑایا جائے
جسم اور روح کو یک بار ملایا جائے
خود کو تقسیم کیے پھرتا ہوں ماشہ ماشہ
کوزہ گر پھر سے مجھے چاک پہ لایا جائے

Wednesday, May 30, 2012

جب تجھے دیکھوں تو احساسِ زیاں بڑھتا ہے

اے مری جانِ جہاں سامنے مت آیا کر
کہ تجھے دیکھ کے احساسِ زیاں بڑھتا ہے

Saturday, May 26, 2012

تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے




تم سمجھتے یو سہولت ہے مجھے
سانس لینا بھی مشقت ہے مجھے

میں کسی اور جہاں کا شاید
یہ جہاں باعثِ حیرت ہے مجھے

ڈھونڈتا ہوں کوئی اپنے جیسا
یعنی خود سے ہی محبت ہے مجھے

یہ جو بکھرا سا میں رہتا ہوں اب
تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے

خوش رہیں لوگ یہ عزت والے
دل کی اتنی ہی وصیت ہے مجھے

آنکھ ساگر سی کوئی لے ڈوبے
اب اسی موت کی حسرت ہے مجھے

میں کسی اور جہاں کا شاید
یہ جہاں باعثِ حیرت ہے مجھے

تو ہے مومن تجھے جنت کا یقیں
میری تشکیک قیامت ہے مجھے

Friday, May 25, 2012

چار روپے


وہ ایک ایسا شخص تھا جس کے ساتھ
میرے رشتے کو کوئی نام نہ تھا
یا یوں کہیے کوئی رشتہ ہی نہ تھا
کہ رشتہ تو دو لوگوں کے بیچ ہوتا ہے
وہ تو آتا تھا تو میں بھول جاتا تھا
کہاں ختم ہوتی ہے ذات میری
اور کہاں شروع ہوتی ہے ذات اس کی!!_______
وہ آج آیا، بیٹھا، چائےپی باتیں کی!!
جانے لگا تو اپنے کپ کے پیسے مجھے دے گیا
تب میں نے جانا
کہ میرے سارے جزبات و احساسات محض جھوٹے مفروضات تھے
جن کی قیمت پاکستانی کرنسی کے فقط چار روپے تھی

2004 Zubair Hall!


Thursday, May 24, 2012

آدمی ہیں خدا نہیں ہیں ہم

سانپ کھاتا سنپولیے کھائے
ترس کھانا کبھی نہ تم ان پر
سانپ کے بچے سانپ ہی تو ہیں
تم کو ڈ س جائیں گے بڑے ہو کر
اس قدر دردِ دل بھی اچھا نہیں
آدمی ہیں خدا نہیں ہیں ہم

روشنی خوابِ محبت سے ضروری ٹھہری

خٔواب رکھ آیا ہوں طاقوں میں چراغوں کی جگہ
روشنی خوابِ محبت سے ضروری ٹھہری

میں نے جس کے لیے تج دی تھی جوانی کی بہار

ذات کا محل گرا ڈالا کہ پوشیدہ تھی
میری تخریب میں تعمیر مرے بچوں کی
میں نے جس کے لیے تج دی تھی جوانی کی بہار
اب وہی میرے بڑھاپے کی اڑاتا ہے ہنسی

آغاز سےانجام تک چاہت کی اتنی داستاں

آغاز سےانجام تک چاہت کی اتنی داستاں
مجبوریاں مجبوریاں مجبوریاں مجبوریاں

مجھے لگ رہا ہے کہ اس خوبرو پر محبت کا آسیب چھایا ہوا ہے

کبھی گنگھرئوو ں کی کبھی قہقہوں کی کبھی رونے والوں کی آواز آئے
مجھے لگ رہا ہے کہ اس خوبرو پر محبت کا آسیب چھایا ہوا ہے

اتفاقا ملا ہوں میں تجھ سے

اتفاقا ملا ہوں میں تجھ سے
اتفاقا بچھڑ بھی سکتا ہوں
اب بہت راس ہوں تجھے لیکن
آدمی ہوں بگڑ بھی سکتا ہوں

دنیا کی اوقات

آج میں جان گیا دنیا کی اوقات کہ جب
بیٹےنے باپ کے رخسار پہ تھپڑ مارا

اے مصور ذرا اس عشق کو تصویر تو کر

ہم بڑی دیر سے رستے میں کھڑے ہیں چپ چاپ
آگے بڑھتے ہیں تو اب راہیں جدا ہوتی ہیں

اے مصور ذرا اس عشق کو تصویر تو کر
دل ملے جائیں مگر باہیں جدا ہوتی ہیں

Wednesday, May 23, 2012

خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

دل میں ٹھہرے ہے نہ پلکوں پہ ہی رکھا جائے
خواب میں کچھ تو بھرا ہے کہ چھلکتا جائے

ایسی ناکام محبت کا کوئی کیا کر لے
وہ مرے ساتھ چلے اور نہ تنہا جائے

مسئلہ قرب و جدائی کا تو چھوڑو کہ ابھی
عشق کس طرز کا ہوگا یہی سوچا جائے

ذہن بھی سوچ بھی آنکھیں بھی جگر بھی دل بھی
سب ترا پھر بھی مجھے غیر کا سمجھا جائے

جان تو یار کی چوکھٹ پہ ہی دھر آئی وہ
جسم کیا لاش ہے اب جس کو بھی سونپا جائے

مجھ کو معلوم ہے اوقات مقددر کی مگر
دل بہلتا ہے جو خوابوں سے بہلتا جائے

خود کو ایذا نہیں دیتا مگر اس عشق میں اب
درد کا کوئی نشہ سا ہے کہ چڑھتا جائے

میری تنہائی مرےچاروں طرف پھیلی ہے

میری تنہائی مرےچاروں طرف پھیلی ہے
مجھ تک آتے ہوئے تنہا نہ کہیں ہو جانا
تو نے رکھا ہے زمانے کے رواجوں پر پائوں
مہم اچھی ہے پہ رسوا نہ کہیں ہو جانا

Monday, May 21, 2012

تمہاری ذات میں میری بھی حصے داری ہے

یہ کیسے سوچ لیا خود کو مار دو گے تم
تمہاری ذات میں میری بھی حصے داری ہے
کبھی کبھی تو مجھے یوں گمان ہوتا ہے
جو لے رہا ہوں میں وہ سانس بھی تمہاری ہے
بہت عجیب محبت کے سلسے ہیں دوست
عجیب قسم کی چاہت ہے بانٹتی ہے مجھے
کہیں پہ جسم دھرا کہیں ہیں پہ روح مری
اب اور مجھ سے نہ کہنا کہ وقت مرہم ہے
تمام عمر یہی سوچ کر گزاری ہے


تو مرے ساتھ سہی سائے کی صورت لیکن

تو مرے ساتھ سہی سائے کی صورت لیکن
میری تنہائی مری ذات کے اندر تک ہے

Thursday, May 17, 2012

واجبی سا ہی تعلق ہے شب و روز کے ساتھ

واجبی سا ہی تعلق ہے شب و روز کے ساتھ
ان کو مجھ سے کوئی مطلب نہ مجھے ان کی خبر

Wednesday, May 16, 2012

مری ماں تیری رحلت نے تو دنیا ہی بدل ڈالی

  حامد محبوب صاحب کی والدہ ماجدہ کے انتقال پر کچھ اشعار لکھےہیں۔

خدارا آسمانوں کا یہ چہرہ اور ہے کوئی
یہ سورج اور ہے کوئی یہ چندا اور ہے کوئی
یا
وہ چندہ اور تھا کوئی یہ  گولہ اور ہے کوئی

مری ماں تیری رحلت نے تو دنیا ہی بدل ڈالی
وہ دنیا اور تھی کوئی یہ دنیا اور ہے کوئی

جو تیری گود میں خوش تھا، وہ تیرے ساتھ ہی ہوگا
مری ماں تیری فرقت میں یہ روتا اور ہے کوئی

میں اپنے آپ کو بھی اجنبی سا لگ رہا ہوں اب
وہ بچہ اور تھا کوئی ، یہ بوڑھا اور ہے کوئی

بہت ہی کھوکھلے سے ہیں سبھی رشتے سبھی جذبے
جو رب نے ماں سے باندھا ہے وہ دھاگا اور ہے کوئی

Tuesday, May 15, 2012

یہ میری شاخ سے ٹوٹا گلاب دیکھو تو!

یہ میری شاخ سے ٹوٹا گلاب دیکھو تو!
مرے پسر کی ذرا آب و تاب دیکھو تو!

Monday, May 14, 2012

پائوں میں بیڑیاں سہی آنکحھ تو آسماں پہ ہے

پائوں میں بیڑیاں سہی آنکحھ تو آسماں پہ ہے
زندگی خاک میں سہی، خواب تو کہکشاں پہ ہے

میں وہ پرندِ پر نوا، جب سے قفس میں قید ہوں
سارے چمن میں رقص ہے گیت مری زباں پہ ہے

تجھ کو بہشت کی طلب، تیرا سفر طویل تر
میں کہ رضا پہ راضی ہوں، مجھ کو سکوں یہاں ہہ ہے

تو ہے فقط تماش بیں زندگی اور کسی کی ہے
بولیے کس کا جسم ہے، سوچیے کون جاں پہ ہے

Sunday, May 13, 2012

ماں


ہستے رہتے تھے اگر ڈانٹ بھی پڑ جاتی تھی
ہم کو معلوم تھا ناراض نہیں ہوتی ماں

اے مرے دیدہِ تر تجھ سے میں شرمندہ ہوں

اے مرے دیدہِ تر تجھ سے میں شرمندہ ہوں
کہ کسی خواب کی تعبیر نہ دیکھی تو نے

Saturday, May 12, 2012

سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

سمجھوتا زندگانی سے کرنا پڑا مجھے
آخر ہوا کے ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے

میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑگیا
لیکن یہ جنگ جیت کے مرنا پڑا مجھے

جس کو حریف جان کے تلوار تھا می تھی
اس کا حلیف دیکھ کے جھکنا پڑا مجھے

یہ کیسی دو رخی ہے کہ بچپن سے جو پڑھا
ہو کر بڑا اسی سے مکرنا پڑا مجھے

"لالچ بری بلا" ہو کہ "سچ بول کا ثمر"
 وہ سب نصاب پھر سے پرکھنا پڑا مجھے

چاہت کا کوئی ربط عداوت نہ دوستی
سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

Friday, May 11, 2012

میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑ گیا

سمجھوتا زندگانی سے کرنا پڑا مجھے
آخر ہوا کے ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے
میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑ گیا
لیکن یہ جنگ جیت کے مرنا پڑا مجھے

Wednesday, May 9, 2012

تیری ہنسی سے میری ہیں سانسیں جڑی ہوئی

دیکھو خدا کے واسطے روٹھا نہ کیجیو
تیری ہنسی سے میری ہیں سانسیں جڑی ہوئی

تری اداسی مری جاں نکال دیتی ہے

ترے لبوں پہ پوں قرباں چٹکتی کلیاں تمام
تری اداسی مری جاں نکال دیتی ہے

Monday, May 7, 2012

رات

سونے والوں کو پتہ رات کسے کہتے ہیں
ہم تو اندھیرے اجالے  کا فرق جانتے ہیں

فرق = غیر موزوں

شدتِ جذبہِ وصال نہ پوچھ

اب محبت میں وہ مقام آیا
کہ تری یاد میں بدن ٹوٹے
شدتِ جذبہِ وصال نہ پوچھ
دل کی دھڑکن سے جانو تن ٹوٹے

خود کشی کرنے والی عورت

خود کشی کرنے والی عورت نے
جب سے بچے جنے ہیں سوچتی ہے
اب اکٹھے مریں گے ہم تینوں

ایک تم سے ہے گفتگو دل کی

ایک تم سے ہے گفتگو دل کی
ورنہ چپ چاپ عمر کاٹی ہے

تو نے بولا ہے ساتھ مشکل ہے

آج تو نبض ڈوبتی جائے
تم نے بولا ہے ساتھ مشکل ہے

کسی رشتے کا کوئی چہرہ نہیں

اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کا
جو دبا دے گلا وہ ایک شخص
جانے کس نظریے پہ زندہ ہے
پس یہ ثابت ہوا کہ دنیا میں
کسی رشتے کا کوئی چہرہ نہیں
کوئی مطلق کسی کا ہوتا نہیں

کس طرح زندگی سے بہلے گا

خود کشی مشغلہ ہو جس کا وہ
کس طرح زندگی سے بہلے گا
جو دعائوں میں موت ماگتا ہو
اپنی اولاد کو وہ کیا دے گا

بہت کمزور سے لگتے ہیں سبھی لوگ مجھے

بہت کمزور سے لگتے ہیں سبھی لوگ مجھے
زرد پتے ہوں کسی شاخ پہ لٹکے جیسے
آندھی آتی ہے تو دالان میں آ گرتے ہیں
لیکن آندھی بھی ضروری تو نہیں ہے صاحب
یوں بھی ہر روز کئی گرتے ہیں ہو کر بوڑھے
وقت چپ چاپ کیے جاتا ہے سب کچھ مٹی

Sunday, May 6, 2012

تو میرے خون میں شامل تو میری روح میں ہے
قراق و وصل کا جھگڑا تو اب رہا ہی نہیں

نوحہِ درد

نوحہِ درد بھی ہوگا تو کہاں تک ہوگا
تنگ آجائوں گا ہر روز کی تکرار سے میں

Saturday, May 5, 2012

سانس بھی مسلسل ہے، تیری یاد کی صورت

زندگی کا کچھ یوں بھی، تجھ سے سلسلہ نکلے
سانس بھی مسلسل ہے، تیری یاد کی صورت

یہ لوگ ضائع کر دیں گے

مجھ کو چھپا کے رکھ لو کسی کو نہ دیجیو
یہ لوگ ضائع کر دیں گے تم کو پتہ تو ہے

بیت باز

ہجومِ شہر بھی طارق عزیز بھی برہم
کہ جیت جائیں گے پھر سے یہ بیت باز مرے

اپنے دامن سے گانٹھ دے مجھ کو

تیری قربت کہ چند لمحوں میں
ہم نے صدیاں گزار لیں جیسے
تیری آنکھوں کی گہری جھیلوں میں
ہم نے آنکھیں اتار دیں جیسے
تیرے ہونٹوں کے نرم گوشوں میں
زندگی کا سراغ ملتا ہے
تیری باتوں میں ہے مسیحائی
نیم جاں سانس لینے لگتا ہے
تیرے پہلومیں نیند جیسا سکوں
اپنے پہلو میں باندھ لے مجھ کو
تیری آغوش جنتوں جیسی
اپنے دامن سے گانٹھ دے مجھ کو

تیرا چہرہ ہٹا نہ پلکوں سے

آج پھر سو نہیں سکا شب بھر
نیند آنکھوں میں کس طرح آتی
تیرا چہرہ ہٹا نہ پلکوں سے

Thursday, May 3, 2012

پھر سے تعمیر کر دیا تو نے

منہدم ہوچکا تھا کھنڈر تھا
پھر سے تعمیر کر دیا تو نے

مجھ کو دنیا میں مل گئی جنت

مجھ کو دنیا میں مل گئی جنت
میں محبت میں مر گیا تھا دوست

Wednesday, May 2, 2012

ترے بغیر بھی زندہ ہیں ہم مگر ایسے

ترے بغیر بھی زندہ ہیں ہم مگر ایسے
کہ سانس لینا گنہ میں شمار ہوتا ہے

دل میں جنت کا خٔواب رکھا ہے

جسم دوزخ میں جل رہا ہے مگر
دل میں جنت کا خٔواب رکھا ہے
رات بھر نیند آئے گی کیسے
شبستاں میں عذاب رکھا ہے

غم کا کوفہ ہے مگر اشک یزیدی ایسے

کاغذی پھول سے خوشبو کا تقاضا کر کے
بہت شرمندہ ہوں پتھر کو میں سجدہ کر کے

آنکھ تو دل سے  بھی بڑھ کر ہے دوانی لوگو
جو اٹھا لائی ہے پیتل کو بھی سونا کرکے

تم مقلد ہو محبت کے وفا کے دل کے
ایسی تقلید تمہیں چھوڑے گی رسوا کر کے

ہاتھ جذبات کا تھاما تھا چلا تھا جب میں
وقت دلدل میں مجھے لایا ہے تنہا کر کے

غم کا کوفہ ہے مگر اشک یزیدی ایسے
آنکھ کو چھوڑ گئے پیاس کا صحرا کر کے

جو میری ذات کے اندر ہے مجھ سے بھی زیادہ

جو مجھ سے بڑھ کے مری ذات میں سمایا ہے
وہ میرے حال سے واقف نہیں ہے حیرت ہے

Monday, April 30, 2012

مان لیتے ہیں ترے ہجر میں زندہ ہیں ہم

سانس لینے کو اگر زندگی کہتا ہے تو
مان لیتے ہیں ترے ہجر میں زندہ ہیں ہم

فشارِ خون

فشارِ خون میں سستی کبھی یہ دردِ سر!
جدائیوں کے ہیں آثار اور کچھ بھی نہیں

Sunday, April 29, 2012

تجھ سے پہلے میں زمانے کا ہوا ہی کب تھا

کائینات اپنی فقط تیرے ہی ہونے سے ہے
تجھ سے پہلے میں زمانے کا ہوا ہی کب تھا

کتنے بے بس ہیں ترے ہجر میں جینے والے

کتنے بے بس ہیں ترے ہجر میں جینے والے
آہ بھر لیتے ہیں دم سادھ کے سوجاتے ہیں

آج تو چاند بھی میں توڑ کے لے آیا ہوں

آج کی شب تو مرے ساتھ گزارو ہمدم
آج تو چاند بھی میں توڑ کے لے آیا ہوں
تیرے ہستے ہوئے چہرے پہ ہو سب کچھ قرباں
سو ترےواسطے سب کچھ ہی اٹھا لایا ہوں

مری نمود تری شاخ پر ہی ممکن ہے

مری نمود تری شاخ پر ہی ممکن ہے
مگر خزاں کی ہوا مجھ کو توڑنا چاہے
زمانہ بانٹ گیا مجھ کو لاکھ حصوں میں
یہ عشق تیرا مجھے پھر سے جوڑنا چاہے

جنگ دنیا سے جیت لی تم نے

جنگ دنیا سے جیت لی تم نے
اب تو چھوڑو جہان کی باتیں
آئو چھپ جائو میرے سینے میں!

زیست کا حاصل

 جو مری زیست کا حاصل ہے وہی ایک شخص
میری تعمیر میں خود نیست ہواجاتاہے

وہ ہے تعمیر کرتا جاتا ہے

مجھ کو تسخیر کرتا جاتا ہے
اپنی جاگیر کرتا جاتا ہے

میں تھا ٹوٹی لڑی مگر وہ شخص
مجھ کو زنجیر کرتا جاتا ہے

وہ مقدر سے ہارتا ہی نہیں
روز تدبیر کرتا جاتا ہے

لوگ مسمار کرتے رہتے ہیں
وہ ہے تعمیر کرتا جاتا ہے

میں اسے خواب دیتا رہتا ہوں
اور وہ تعبیر کرتا جاتا ہے

جنت

چمن کے پھول ہو یا آسماں کے تارے ہوں
لغت کے لفظ ہوں یا زیست کے نظارے ہوں
کوئی بھی شے تری چاہت کا استعارہ نہیں
سنا نہ دیکھا نہ سوچا تھا ہم نے ایسا کہیں
اسی لیے تجھے "جنت" کا نام دیتے ہیں

مجھے سمیٹ کے یکتا بنا دیا تو نے

بکھرتی راکھ تھا شعلہ بنا دیا تو نے
مجھے سمیٹ کے یکتا بنا دیا تو نے

میں گر گیا تھا مقدر کی جنگ لڑتے ہوئے
پکڑ کے ہاتھ مجھے پھر اٹھا دیا تونے

مرا وجود کہ مٹی میں مل کے مٹی تھا
چھوا جو مجھ کو تو سونا بنا دیا تو نے

یہ تیرا قرب مری جان لے نہ جائے کہیں
کہ میرے جسم کو بت سا بنا دیا تو نے

یہ تیری باتوں کی لوری میں موت جیسا سکوں
مجھے خمار کا رسیا بنا دیا تو

نگاہِ ناز میں کوئی مسیحا رہتا ہے
کہ مردہ جسم کوزندہ بنا دیا تو نے

Wednesday, April 25, 2012

یہ تم آئے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں سپنا

گھاس کا فرش ہے ، ہم ساتھ ہیں ،چلتے جائیں
گدگداتی ہوئی پر کیف ہوا کے جھونکے
پاس سے گزریں تو سرگوشی میں ہستے جائیں
جیسے ان کو بھی پتہ ہو کہ مرا پیار ہو تم
رات خاموش ہے اتنی کی تری پلکیں بھی
شور کرتی ہوئی گرتی ہیں تری آنکھوں پر
ہونٹ کھلتے ہیں کہ کلیاں سی چٹکتی ہیں کہیںں
دل کی دھڑکن بھی مجھے صاف سنائی دے ہے
چاند بھی دور سے چھپ چھپ کے ہمیں دیکھتا ہے
جیسے بچہ ہو شرارت کرے شرمائے بھی
آسماں تھال ستاروں کا لیے جشن میں ہے
میں بڑی دیر سے چپ چاپ یہی سوچتا ہوں
یہ تم آئے ہو کہ میں دیکھ رہا ہوں سپنا

Tuesday, April 24, 2012

میں ہوں خاموش مجھ سے کچھ نہ کہو
مجھ کو رہنے دو کیف کے اندر
آج آہا ہوں یار سے مل کر

تیرے پہلو میں جنتیں ساری

تیرے پہلو میں جنتیں ساری
تجھ پہ مر کر بڑے سکون میں ہوں
تمہارے پیار سے بڑھ کر کوئی مٹھا س نہیں
مجھے طلب ہے تمہاری کوئی بھی پیاس نہیں

تم آنکھ ہی سے پلا دو تو سیر ہو جائوں
کہ اس جہاں کی شرابیں مجھے تو راس نہیں

تم اپنی انگلی ڈبو ددینا چائے کے اندر
جو خاص اس میں ہے چینی میں وہ مٹھا س نہیں

تو میرے دشتِ محبت کا آخری ہے شجر
سو تیرے بعد زمانے سے کوئی آس نہیں

سیاہ رنگ بھی تجھ ہر دھنک سا سجتا ہے
کہ تیرے حسن سے بہتر کوئی لباس نہیں

ترے بغیر بھی زندہ ہیں معجزہ دیکھو

کبھی تو آ کے جدائی کا حادثہ دیکھو
ترے بغیر بھی زندہ ہیں معجزہ دیکھو
ہوس کی تھاپ پہ جسموں کا رقص جھوٹا ہے
دلوں کے بیچ کراہت کو چیختا دیکھو
اپنی آغوش میں رکھ لو گا چھپا کر تجھ کو
پیار کا خواب اگر پھر سے ڈرانے آیا

Friday, April 20, 2012

نہ میںخدا نہ پیمبر نہ بادشاہ تھا کوئی
سو تھک گیا محبت کی جنگ لڑتے ہوئے

بساطِ ذات سے بڑھ کر ترا خیال کیا
کہ خود ہی ڈوب چلا تجھ کو پار کرتے ہوئے

مرے وجود کے مالک ترے علاوہ بھی ہیں
وگرنہ عذر تو کوئی نہیں تھا مرتے ہوئے

وہ ہو رہا ہے جدا مجھ سے کتنا پاگل ہے
جواور الجھے مجھ سے کنارہ کرتے ہوئے
تم جسے علم کہ رہے ہو میاں
چند ہندسے حساب کے ہیں فقط
علم کاریگری نہیں ہے کوئی
ساری کاوش ہے رزق کی خاطر
یعنی زندہ ہیں موت کے ڈر سے

Thursday, April 19, 2012

میں اپنی کاشت کی کھیتی اجاڑ ایا ہوں

ہزار حیلے سہی جی لگے نہ جیون میں
میں وہ زمین جو پیاسی رہی ہے ساون میں
میں اپنی کاشت کی کھیتی اجاڑ ایا ہوں
نہ میرے ہاتھ میں کچھ ہے نہ میرے دامن میں
نظر اٹھائوں جدھر راکھ ہی نظر آئے
یہ کس نے اگ لگا دی مرے نشیمن میں
گلاب بھی ہے وہی اور وپی کلی بھی ہے
بس ایک آنکھیں ہی میری نہیں ہیں گلشن میں
یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں ہی جانا تھا
ستارے دھونڈ رہا تھا میں دستِ رہزن میں

خفگی

ایک لمحے کی بھی خفگی نہیں دیکھی جاتی
تیری ناراضگی سے جان چلی جائے گی

اتنی جلدی تجھے ناراض نہ ہونے دوں گا

اتنی جلدی تجھے ناراض نہ ہونے دوں گا
یوں خفا ہونے سے پہلے مجھے قائل تو کر

تم کو شکوہ ہی سہی مجھ سے مگر جانِ حیات ب

تم کو شکوہ ہی سہی مجھ سے مگر جانِ حیات
بات تو کر لے کہ شاید یہ ترا وہم ہی ہو

ایک لمحے نے اسے رات میں یوں دفن کیا

نادمِ حرص پے ٹھکرایا ہوا رہتا ہے
اپنی اولاد سے شرمایا ہوا رہتا ہے
ایک لمحے نے اسے رات میں یوں دفن کیا
دن نکلتا ہے تو گھبرایا ہوا رہتا ہے

ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

زندگی سہمی ہوئی بیٹھی دفینوں کے بیچ
ڈوبتا جائے کوئی شخص سفینوں کے بیچ

گھر میں دولت بھی ہے آسائشِ دنیا بھی ہے
ایک بس قحط ہے چاہت کا مکینوں کے بیچ

لڑجھگڑ کر ہی چلا آتا ہوں گھر سے ہر روز
آگ ہروقت سلگتی رہے سینوں کے بیچ

کتنے کمزور ارادے دلِ بے کس کے ہیں
کہ بہک جاتا پی زاہد بھی حسینوں کے بیچ

ہم جسے سمجھے تھے طاقت کا حوالہ وہ شخص
روگ نے چاٹ لیا کچھ ہی مہینوں کے بیچ

Wednesday, April 18, 2012

ایک بیوی ہے مرے گھر میں جہنم کی طرح

مسئلے ملتے ہیں چوکھٹ پہ قدم رکھتے ہی
ایک بیوی ہے مرے گھر میں جہنم کی طرح
مار کھاتے ہوئے معصوم پکاریں مجھ کو
میں کبھی ایک کو دیکھوں تو کبھی دوجے کو
کھانا اپنے لیے بازار سے لے آتا ہوں
اور کونے میں کہیں بیٹھ کے کھا جاتا ہوں
رات کٹ جاتی ہے فیڈر ہی بناتے میری
----------
صبح دم دفتری اوقات میں جا کر دفتر
سر کھپاتا ہوں مشینوں کے مسائل سے پھر
لوگ کہتے ہیں کہ گھر والا بنا ہوں جب سے
میں کسی دوست سے ملتا ہی نہیں موڈ میں ہوں
کون جانے کہ مری عمر کا چلتا پہیہ
کسی دلدل میں بھٹک آیا ہے کھا کر چکر
میں نے بھی جنتِ عرضی کا سجا کر سپنا
گھر بسایا تھا بہت سوچ کے شادی کی تھی

مجھ میں آجائو کبھی سانس کی ڈوری کی طرح

مجھ میں آجائو کبھی سانس کی ڈوری کی طرح
اور بندھ جائو مری جاں سے ہمیشہ کے لیے

Monday, April 16, 2012

ایک لمحے کی لغزش

سفید ریش، نمازی،وہ عزتوں کا امیں
جو اپنے آپ کو عصمت کا پاسباں سمجھے
کل ایک لمحے کی لغزش سے داغ داغ ہوا

اظہارِ تشکر

نہ پارسائی کا دعوی نہ افتخار کوئی
عطائِ ربّی ہے جو عزتوں کا مالک ہے
میں ہاتھ جوڑ کے کرتا ہوں شکر مالک کا

شرمسار

یہ چند رشتے کمائی تمام عمر کی ہیں
میں شرمسار ہوں ان سے کدھر کو جائوں اب

Sunday, April 15, 2012

میں کیسے مان لوں اس کو نسیب کی سختی

میں کیسے مان لوں اس کو نصیب کی سختی
مرے عزیز ہی کرتے ہیں فیصلہ میرا
خدا کے نام پہ رسمیں سماج والوں کی
بہت الجھ ساگیا دوست مسئلہ میرا
یہ اونٹ چلتے نہیں خوف سے بدکتے ہیں
کہ جیسے بھول گیا سمت قافلہ میرا

رات کے پچھلے پہر آکے جگا دیتی ہیں

رات کے پچھلے پہر آکے جگا دیتی ہیں
تیری یادیں بھی تہجد کی اذاں ہوں جیسے

تو جا رہا ہے مگر اتنا دھیان میں رکھ

تو جا رہا ہے مگر اتنا دھیان میں رکھ
کہ تیرے ساتھ ہی دنیا مری سفر میں
 تو میرے عشق کی بندش سے ماورا ہی سہی
مگر مرا تو سبھی کچھ تری نظر میں ہے

تیری خودغرضی گوارا ہے مگر دھیان میں رکھ

تیری خودغرضی گوارا ہے مگر دھیان میں رکھ
آخرانسان ہوں تھک جائوں گا میں بھی اک دن

زندگی قبر کی طرح محبوس

زندگی قبر کی طرح محبوس!
تو ہے جنت کے نرم جھونکے سا

نور لگتا ہوں مگر آگ بھری ہے اندر

نور لگتا ہوں مگر آگ بھری ہے اندر
مجھ سے ملتے ہوئے دامن کو بچا کر رکھنا

زندگی سے تو بگڑ بیٹھے جوانی سے ہی

زندگی سے تو بگڑ بیٹھے جوانی سے ہی
عمر مجرم کی طرح ہم کو گھسیٹے جائے

ہم تری آنکھ کا منشور اٹھا لائے ہیں

یو ای ٹی ایل ایس گرہ

ہم تری آنکھ کا منشور اٹھا لائے ہیں
زندگی دیکھیے کیا رنگ دکھاتی ہے ہمیں" = مصرع طرح

عشق جب سے پڑا ہے رسموں میں

عشق جب سے پڑا ہے رسموں میں
دل بڑا غمزدہ سا رہتا ہے

ایک تاوان محبت کا

ایک تاوان محبت کا ابھی باقی ہے
اور تو سارے گناہوں کی سزا کاٹ چکے

نامعتبر

اب اس سے بڑھ کے بھی نامعتبر کوئی ہوگا؟
تو ایک سایہ ہے بادل کاریت کے اوپر
تو کوئی سایہ ہے بادل کاریت کے اوپر

تو میری سوچ سے بڑھ کر مرے مزاج کا ہے

تو میری سوچ سے بڑھ کر مرے مزاج کا ہے
بس ایک فرق مقدر کے زائیچے میں ملا

چاند

سو گیا چاند صبح ہوتے ہی
رات نے خوب جگایا اس کو
رات بھر چلتا رہا بچ بچ کر
ایک بدلی نے چھپایا اس کو

Saturday, April 14, 2012

میں بھاگ بھاگ کے ملتا ہوں ساتھ لوگوں کے

میں بھاگ بھاگ کے ملتا ہوں ساتھ لوگوں کے
مگر یہ لوگ بتائے بغیر مڑتے ہیں
ابھی تو راہ نہیں ملتی منزلیں کیسی
میں تیز تیز چلوں گا سفر شروع تو ہو

عشق کے جال میں صیاد بھی آخر

عشق کے جال میں صیاد بھی آیا آخر
میں تو پاگل تھا اسے خود سے بھی بڑھ کر پایا

نہ قسمتیں ہیں کشادہ نہ میرا دامن ہی

تمہارے پیار کی حسرت رہے گی حسرت ہی
نہ قسمتیں ہیں کشادہ نہ میرا دامن ہی!!

مجھ پر ترا فراق مکمل نہ ہو سکا

بادِ صبا نے تیری مہک لا کے مجھ کو دی
سورج اٹھا کے لایا ہے چہرے کی دھوپ کو
راتوں میں تیری زلف کے سائے پڑے ہوئے
صبحیں چرا کے لائی ہیں تیرے ہی روپ کو
باتوں میں تیرے لفظ ہی لپٹے رہے سدا
آنکھوں میں تیرے خواب ہیں خوابوں میں تو ہی تو
مجھ پر ترا فراق مکمل نہ ہو سکا

تو کوئی جسم نہیں

تو کوئی جسم نہیں شخصیت ہے میرے لیے
گزرتی عمر ترا روپ چھین سکتی نہیں

میں تیرا دل ہوں

میں تیرا دل ہوں دھڑکتا ہوں تیرے سینے میں
تو مجھ کو ڈھونڈنے نکلا ہے دشت میں کیوں کر

ایسے سنسان ہوا شہر ترے جانے سے

ایسے سنسان ہوا شہر ترے جانے سے
جیسے عنبر سے کوئی چاند ستارے لےلے

میں سکھا دوں گا تجھے ہجر میں جینے کا گر

میں سکھا دوں گا تجھے ہجر میں جینے کا گر
اب کی بار آئو گے تو یاد دلانا مجھ کو

تم تو ساری ہی زندگانی تھے

تم تو ساری ہی زندگانی تھے
تیرے جانے کے بعد جانا ہے

یہ شاعری کی فضا ہے

یہ شاعری کی فضا ہے کہ کوئی سرخوشی
میں مست رہتا ہوں دن رات اپنی سوچوں میں

جیب میں سکے نہیں دل میں ہیں ارمان بہت

ایسے للچا کے تجھے دیکھوں کہ جیسے عید کے روز
ایسے للچا(حسرت سے) کے تجھے دیکھوں کہ جیسے روزِ عید
کسی مفلس کا کوئی بچہ ہو بازاروں میں
جیب میں سکے نہیں دل میں ہیں ارمان بہت

گزرتے وقت کا کوئی بھی اعتبار نہیں

گزرتے وقت کا کوئی بھی اعتبار نہیں
یہ چند لمحے محبت کے جیب میں رکھ لے

Monday, April 9, 2012

آنکھ کھلتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

نیند میں خواب میں رہتا ہے ترا ہی چہرہ
آنکھ کھلتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

کبھی سوچا ہی نہیں مانگنا کیا ہے رب سے
ہاتھ اٹھتے ہی تری یاد چلی آتی ہے

مرے نصیب کی اوقات جانتے ہوتم

ہیں دل کو خواب کی جھوٹی تسلیاں ورنہ
مرے نصیب کی اوقات جانتے ہوتم!
نہ چاند جھیل کے اندر نہ جھیل آنکھوں میں
کہ شاعروں کے خیالات جانتے ہوتم
میں اپنے آپ میں اک کائینات ہوتا تھا
بچے ہیں اب تو خرابات جانتے ہو تم

عشق میں اور ہوس میں کوئی تفریق نہیں

عشق میں اور ہوس میں کوئی تفریق نہیں
ایک ہی شخص کے دو نام ہیں بچ کو رہیو
محفلِ یاراں میں تفسیر دھڑکتے دل کی
اور تنہائی میں تشریحِ تمنائے دل

میں اپنے کردہ گناہوں کے احتساب میں ہوں

میں اپنے کردہ گناہوں کے احتساب میں ہوں
ترے وجود کی جنت مرا نصیب نہیں

یہ ممکنات کی دنیا یہ معجزات کا دور
مگر یہ تیری محبت میرا نصیب نہیں

مجھے ہوا کے مخالف محاذ رکھنا ہے
مجھے ہوا کے مخالف اڑان بھرنی ہے
یہ بادبانوں کی راحت  میرا نصیب نہیں

اگر میں چاہوں تو آرام سے جی سکتا ہوں
مگر یوں جینے کی عادت  میرا نصیب نہیں

تو مجھ کو اپنے مقدر کا مسئلہ نہ بنا

تو مجھ کو اپنے مقدر کا مسئلہ نہ بنا
میں تیرے حصے میں آیا ہوں اتفاقا ہی
گریز پا ہی سہی چند پل ملے تو ہیں
یہ چند پل بھی میں لایا ہوں اتفاقا ہی

مرے وجود پہ قابض ہیں دعویدار کئی

مرے وجود پہ قابض ہیں دعویدار کئی
بس ایک دل ہے جو تیرے لیے دھڑکتا ہے

یہ فیصلہ ہے سنایا سماج والوں نے

یہ فیصلہ ہے سنایا سماج والوں نے
کہ عزت اور محبت سے ایک ہی کو چن!

سانسیں خرید لایا ہوں

میں خود کو بیچ کے سانسیں خرید لایا ہوں
کہ جان میری مگر زندگی کسی کی ہے

توصرف عشق نہیں میرا بانکپن بھی ہے

توصرف عشق نہیں میرا بانکپن بھی ہے
میں لڑکھڑاتا رہوں گا ترے ملن کے بغیر

بارشیں درد سے منسوب رہیں گی کب تک؟

کتنے برسوں سے مری آنکھیں تھیں صحرا صحرا
اور پلکوں پہ فقط ریت جمی رہتی تھی
ذات ایسی تھی کہ جیسے کوئی چٹیل میداں
-----------------
آج اک ہمدمِ دیرینہ سے ملنے آیا
اس کی آنکھوں میں تھے ساون کے وہ گہرے بادل
جو گلے ملتے ہی گھن گرج سے برسے ہم پر
ایسی بوچھاڑ کے یک دم ہوئے دونوں جل تھل
-----------------
اس کی بیوی نے کسی چاند کو جنما تھا مگر
چاند بے جان تھا مٹی کے کھلونے کی طرح
بارشیں درد سے منسوب رہیں گی کب تک؟

/ گھن گرج - غیر موزوں ہے
بے دردی بھی ٹھیک ہے

Saturday, April 7, 2012

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ

تھام لوں ایسے کہ ہاتھوں میں پگھل جائے وہ
اور دنیا کے مناظر سے نکل جائے وہ‬

نہ کوئی رسم نہ بندش ہو زمانے کی پھر
   کہ مرے جسم کے لوہو میں ہی ڈھل جائے وہ‬

اس کو پی لوں میں کسی آب مبارک کی طرح
سو مری ذات کو جنت میں بدل جائے وہ

اس سے بڑھ کر بھی گلستاں کا حوالہ ہوگا
جب کبھی بات کرے بھول سا کھل جائے وہ


اپنی ساننسوں میں اسے ایسے اتاروں اک دن
کہ مرے سینہ بے تاب میں گل جائے وہ
کہ میری سانس کی گرمی میں ہی گل جائے وہ
کہ میری سینے کی گرمی میں ہی گل جائے وہ

آسمانوں کی طرف ایسے اچھالوں اس کو
اس زمانے کے حوادث سے نکل جائے وہ

Thursday, April 5, 2012

خواب کی جھیل میں اک چاند رہا کرتا تھا

 خواب کی جھیل میں اک چاند رہا کرتا تھا
اوک میں بھر کے جو لائے تو فقط ریت ملی

بازو پھیلا کے اسے روکنا چاہوں گا مگر

بازو پھیلا کے اسے روکنا چاہوں گا مگر
وہ مرے بیچ سے گزرے گا ہوائوں کی طرح

سامنے بیٹھا ہے کچھ دیر میں اٹھ جائے گا

سامنے بیٹھا ہے کچھ دیر میں اٹھ جائے گا
یار بھی وقت ہے روکے سے کہاں رکتا ہے

Monday, April 2, 2012

نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم




پھٹ جائیں گے کچھ پل میں غبارے کی طرح ہم
آئے ہیں ترے حق میں خسارے کی طرح ہم

رو رو کے بلائے گا وہ اک پھول کنول کا
بہتے ہوئے بہہ جائیں گے دھارے کی طرح ہم

جینا ہے کوئی ہنر تو ہم کو بھی سکھا دو
ٹوٹے ہیں مقدر کے ستارے کی طرح ہم

مجمع سا لگایا ہے تماشائے وفا نے
نظروں کی طرح لوگ نظارے کی طرح ہم

چلتے ہیں ترے شانوں پہ رکھے ہوئے بازو
کہنے کو تو ہیں ساتھ سہارے کی طرح ہم

پتھر کے مجسم میں لہو ڈھونڈ رہے تھے
مسمار ہوئے ریت کے گارے کی طرح ہم

میرے غم خانے سے خوشیوں کی تلاشی لے لے

وقت ہاتھوں سے گرے جائے ہیے پانی کی طرح
ابھی کچھ دن میں مجھے چھوڑ کے چل دے گا وہ

چند خوابوں نے مری آنکھ پہ دستک دی ہے
لوٹ جائیں گے دلِ زار کو جب دیکھیں گے

میں نئے خواب بھلا کیسے سجا سکتا ہوں
پچھلے خوابوں کے ہیں لاشے ابھی بے گووکفن

میرے غم خانے سے خوشیوں کی تلاشی لے لے
ایک بھی لمحہ مسرت کا نہ مل پائے گا

تو نے دیکھا ہے چمکتے ہوئے سورج کو بس
تجھ کو معلوم نہیں نور کی تخلیق کا دکھ

کتنا ناداں ہے مراچاہنے والا ریحان
جو مری ذات سے امید لگا بیٹھا ہے

یہ پہرے دار سی دنیا

یہ پہرے دار سی دنیا جو ہم پہ قابض ہے
ہمارے دل کے خزانوں کو دیکھ سکتی نہیں

یادیں

تمہاری یادیں اثاثہ ہیں زندگانی کا
میں ان کے ساتھ زمانے گزار سکتا ہوں

Saturday, March 31, 2012

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں
 وہ خود کو ہار گیا میری خواہشوں سے قبل

Friday, March 30, 2012

سماج

میری محبتوں کا اجی کچھ نہ پوچھیے
میں جس بھی راہ سے گئی آگے سماج تھا

زندگی رقص میں ہے تجھے پانے کے بعد

زندگی رقص میں ہے تجھے پانے کے بعد!

میں محبت ہوں بس محبت ہوں

میں محبت ہوں بس محبت ہوں
مجھ کو اتنا کرید کر نہ دیکھ
تو  بھٹک جائے نہ کہیں مجھ میں

Thursday, March 29, 2012

تو کتنا خاص ہے

ابھی تو باتیں سنیں ہیں ابھی تو کیا جانے
تو کتنا خاص ہے اک بار میرے دل سے پوچھ

گفتگو

آخر اک دن تو لوٹنا ہوگا
ہو گی پتھر سے گفتگو کب تک

سانس لینے میں اب سہولت ہے

تیری یادوں نے بڑھ کے تھام لیا
سانس لینے میں اب سہولت ہے

Wednesday, March 28, 2012

تو شاد باد رہے

تجھے اجڑنے نہ دوں گا، یہ میرا وعدہ ہے
میں تجھ کو کھو کے بھی خوش ہوں، تو شاد باد رہے

میں پچھلے وقتوں کا کوئی شاعر

مری ضرورت کو کون سمجھے
مری طبیعت کو کون جانے
نہ مال و ذر کی ذر ا ہوہس ہے
نہ جسم و جاں کا مطالبہ ہے
نہ مجھ کو شہرت سے کچھ غرض ہے
نہ دل کو چاہت سے واسطہ ہے
میں پچھلے وقتوں کا کوئی شاعر
جو اس زمانے میں آگیا یے
چند اپنے جیسوں کو ڈھونڈتا ہوں
میں پچھلی قدروں کو دھونڈتا ہوں
چراغ ہاتھوں میں لے کے کب سے
خلوص والوں کو ڈھونڈتا ہوں

میں تار تار ہوں مفلس کے پیرہن کی طرح

وہ کتنے ظرف کا مالک ہے سوچتا ہوں میں
جو میرے عیب کو مجھ سے چھپا کے ملتا ہے

میں تار تار ہوں مفلس کے پیرہن کی طرح
وہ خوش لباس مگر سر جھکا کے ملتا ہے

Tuesday, March 27, 2012

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں

 زار درد سہے دل نے راحتوں سے قبل
کہ ہو کہ آیا ہوں دوزخ سے جنتوں سے قبل

تمہارے لفظ جو بامِ زبان سے اتریں
میں بڑھ کے تھام لوں ان کو سماعتوں سے قبل

یہ کیسا حالِ تمنا یہ کیسا دورِ جنوں
 وہ خود کو ہار گیا میری خواہشوں سے قبل

کوئی بتائے بھلا ایسے بھی کہں ہوتا ہے
کہ جاں نثار کرے کوئی چاہتوں سے قبل

مرے علاوہ بتا کون تجھ کو سمجھے گا
میں بوجھ لیتا ہوں تجھ کو وضاحتوں سے قبل

میں جس کو چاند سمجھتا تھا آسمانوں کا

میں جس کو چاند سمجھتا تھا آسمانوں کا
وہ راستے میں زمیں  پر پڑا ملا ہے مجھے

Monday, March 26, 2012

ہمارے بیچ میں رشتہ

یہ عشق وشق کی باتیں بڑی پرانی ہیں
ہمارے بیچ میں رشتہ کوئی نیا سا ہے

چراغ

میں جس کو ہاتھ پکڑ کر دکھا رہا تھا سفر
وہی چراغ بنا میری رہگزارکا آج

یہ کیسے موڑ پہ آ کر مجھے ملے ہو تم

یہ کیسے موڑ پہ آ کر مجھے ملا ہے تو
کہ میرے پائوں میں بیڑی، تجھے ہے اذنِ خرام

Sunday, March 25, 2012

تو اپنے بارے میں مجھ سے کبھی سوال تو کر

تو اپنے بارے میں مجھ سے کبھی سوال تو کر
میں عمر بھر تیرے بارے جواب لکھتا رہوں

تیری نظر کو لکھوں حرفِ جاں فزا ہے کوئی
ترے کلام کو دل کی کتاب لکھتا رہوں


سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

گرزرتے وقت کو بوتل میں باندھ کر رکھ لے
تر میری زیست ہی اس پل میں باندھ کر رکھ لے

میں جابجا ہوں کوئی بکھری ریزگاری ہوں
سمیٹ لے مجھے آنچل میں باندھ کر رکھ لے

میں کام کا تو نہیں پھر بھی احتیاطا ہی
اضافی خواب کو کاجل میں باندھ کر رکھ لے

تو میری زیست کا حاصل، تو میری جان کی لو
مجھے سنبھال لے اور دل میں باندھ کر رکھ لے

تو ایک سیپ کہ قسمت سے جو ملی مجھو
سو میری موج کو ساحل میں باندھ کر رکھ لے

میں تجھ میں ایسے ملوں پانی میں چینی جیسے
سو مجھ کو ذات کے منحل میں باندھ کر رکھ لے

Saturday, March 24, 2012

گفتگو تھی کہ نیند کا بستر

نیند میں چاند کی سواری ہے
آنکھ میں خواب کی خماری ہے

کوئی جادو ہے تیری باتوں میں
کیف ہی کیف مجھ پہ طاری ہے

گفتگو تھی کہ نیند کا بستر
عمر بھر کی تھکن اتاری ہے

میں ہوائوں سا ہو گیا ہلکا
بوجھ دل کا نہ سانس بھاری ہے

پیر کانٹوں کی باڑھ کے اوپر
آنکھ میں پھول کی کیاری ہے

ایک پہلو میں طرب کے لمحے
ایک پہلو میں سوگواری ہے

جو بنایا ہے سو نبھایا ہے
زندگی شرطِ استواری ہے

بانٹ کر دیکھ لے اگر چاہے

بانٹ کر دیکھ لے اگر چاہے
میں کہ پہلے سے جابجا ہوں بہت

اس سے پہلے تو اس قدر بھی نہ تھ

اس سے پہلے تو اس قدر بھی نہ تھا
دل کو کچھ حوصلہ دیا تو نے

میں بھی جنوں خیز ہوا تو بھی ہوا پاگل

اس شخص کی باتوں میں مرے ذہن کی ہلچل
اس شخص کی آنکھوں میں مرے درد کا ساحل

کیوں کہتے ہو کہ صحرا میں سدا ریت رہے گی
دیکھا ہے کبھی موج میں آیا ہوا بادل؟

چھپتے ہیں چھپانے سے بھلا درد کے آنسو؟
بھیگا ہے کبھی پلو کبھی پھیلا ہے کاجل

تم لاکھ چھپا لو غمِ   ہستی نہ چھپے گا
چہرہ ہی بتا دیتا ہے کس کرب میں ہے دل

اس دشت محبت سے قبل اچھے بھلے
میں بھی جنوں خیز ہوا تو بھی ہوا پاگل

میں نے جذبوں کا ہاتھ تھاما تھا

لوگ ہستے تھے پہلے پاگل پر
اب وہ ہر روز مجھ پہ ہنستے ہیں 
میں نے پاگل پہ ترس کھایا تھا
موت سے بڑھ کے بے مزہ نکلی
زندگی کی دوا جو لایا تھا
--------------------
روز چلتا ہوں تھوڑی دور مگر
روز واپس ہی لوٹ آتا ہوں
ایک خواہش پکارتی ہے مجھے
ایک خواہش نے قید کر ڈالا
-------------------------
رونے والوں کے اشک دھوئے تھا
درد مندوں کے پاس بیٹھا تھا
زندگی نے تھکا دیا مجھ کو
میں نے جذبوں کا ہاتھ تھاما تھا


مجھ کو جنت کی عادتیں نہ ڈال

مجھ کو جنت کی عادتیں نہ ڈال
میں نے دوذخ کو لوٹنا ہے ابھی

دوائی

زندگی کی دوائی لایا تھا
موت سے بچ گیا مگر رویا

اتفاقا نہیں ملے مجھ کو

تم تو انعام ہو مرے رب کا
اتفاقا نہیں ملے تجھ سے
زیست کا نکتہ عروج ہو تم
زندگی! اب نہیں گلہ تجھ سے

خدا نہیں ہو مگر پھر بھی آرزو تو ہے

خدا نہیں ہو مگر پھر بھی آرزو تو ہے
کہ تیری زندگی خوشیوں کی داستاں کر دوں

تو میرے واسطے اک خواب ہے حقیقت سا
میں اپنی آنکھ میں رکھ لوں؟ کہ جسم و جاں کر دوں؟

اشعار کا موسم

آیا ہے ترے ہجر کے آزار کا موسم
پھر اترا مرے ذہن پہ اشعار کا موسم

تفسیر زندگی

اس ایک بات میں تفسیر زندگی کی تھی
جو اس نے جاتے ہوئے آنکھ سے کہی ہمدم

Thursday, March 22, 2012

رخِ ہوا

رخِ ہوا لیے جاتا ہے دور مجھ سے تمہیں
تمہیں جہاں کے حوالے میں کس طرح کر دوں


نہ تیرے ہاتھ کی شمع، نہ تیری آنکھ کی لو
اندھیری رہ میں اجالے میں کس طرح کر دوں



جسے تلاشتے صدیوں کا راستہ کاٹا
اسے یوں رب کے حوالے میں کس طرح کردوں



وہ میرے ذہن پہ چھایا ہے آسماں کی طرح
یہ کام بھولنے والے میں کس طرح کر دوں

تمہارے واسطے کوئی فلک سے اترے گا

ہمارے جیسے تو پھرتے ہیں اس زمیں پہ بہت
تمہارے واسطے کوئی فلک سے اترے گا

سچ پوچھ مجھے آج بلاغت کا نشہ ہے

بے لوث محبت کہ عقیدت کا نشہ ہے؟
یادوں میں تری آج قیامت کا نشہ ہے

 باتیں ہیں کہ آیات صحیفہِ وفا کی
آنکھوں میں تری عین عبادت کا نشہ ہے

آتا ہے مرے جی میں کہ لکھ کر تجھے رکھ لوں
تجھ میں کسی دلچسپ عبارت کا نشہ ہے

معلوم ہی کیا تجھ کو کہ کیا ہے تو ہمارا
اس زیست کی تو آخری چاہت کا نشہ ہے

خاموش رہوں پھر بھی مری سوچ وہ سمجھے
سچ پوچھ مجھے آج بلاغت کا نشہ ہے

Wednesday, March 21, 2012

ہم ماضی کے ایام ہیں آئیں گے نہ مڑ کر

ہم اجڑے ہوئے لوگوں کی تم فکر نہ کرنا
بھولے سے بھی اب میرا کہیں ذکر نہ کرنا

ہم ماضی کے ایام ہیں آئیں گے نہ مڑ کر
تم خوابِ گریزاں پہ کبھی جبر نہ کرنا

Tuesday, March 20, 2012

تو مکمل ہے


تجھ سے ملنا تو موت ہے میری
تو مکمل ہے اس قدر جاناں

گو مل رہا ہے مزاج اپنا

گو مل رہا ہے مزاج اپنا، مگر ستارے نہ مل سکیں گے
کہ اپنی کشتی ہے بادبانی، ہمیں کنارے نہ مل سکیں گے

میں ریت ہاتھوں میں لے کے بیٹھا نہ جانے کب سے یہ سوچتا ہوں
اٹھے گی جب بھی یہ لال آندھی، مجھے اشارے نہ مل سکیں گے

وہ جلد بازی وہ بے نیازی، مری جوانی کا کچھ نہ پوچھو
میں بانٹ آیا ہوں خود کو ایسے کہ اب سہارے نہ مل سکیں گے

تمہاری آنکھوں میں جب سے دیکھا، میں اپنے ماضی میں آگیا ہوں
بہت سے خوابوں کو پا گیا ہوں مگر وہ سارے نہ مل سکیں گے

تلاش جن کی تھی مدتوں سے، وہ سارے گوہر  ہیں تیرے اندر
مگر میں آیا بھنور کی زد پر، مجھے کنارے نہ مل سکیں گے

گردِ زمانہ

تو آیہ تطہیر کی صورت ہے مقدس
تو گردِ زمانہ سے پریشان نہ ہونا
توایک ہے لاکھوں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے
اس درجہ پذیرائی پہ حیران نہ ہونا

Monday, March 19, 2012

دھوپ میں ایسے ملے پانی میں پانی جیسے

اس قدر گوری کلائی نظر آئے کیسے
دھوپ میں ایسے ملے پانی میں پانی جیسے

کھڑکی

بہت گھٹن تھی مرے جسم و جان کے اندر
کہ ایک کھڑکی کھلی تیری یاد کی جانب!

مشکل

جام بھر لیتا ہوں کچھ سوچ کے رکھ دیتا ہوں
پیاس کا زور بھی ہے اور گنہ کا ڈر بھی

تنگ دامنی

تو نے بخشا ہے بہت کچھ میں سمیٹوں کیسے
کر گیا چھید مری جھولی میں جانے والا

Sunday, March 18, 2012

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے



زمین اور ہفت آسماں چھوڑآئے
کہ بخشے ہوئے سب جہاں چھوڑائے

ارے جسم اور روح کی بات کیا اب
کہ وحشت میں نام و نشاں چھوڑآئے

محبت ہمارا حوالہ رہی ہے
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

یہ بے جان لاشے بھلا کیا کرو گے
مسافر تو رستے میں جاں چھوڑآئے

جو خوشبو کی خواہش سنبھالے چلے تھے
وہ رنگوں میں دل کا جہاں چھوڑ آئے

لفافہ مروت کا جب ہم نے کھولا
تو ہچکی بھری خاکداں چھوڑ آئے

تہی دست بیٹھے ہو منزل پہ آکر
دل و جاں کی دولت کہاں چھوڑ آئے


وہ جو تندور جلاتی تھی محلے بھر کا

وہ جو تندور جلاتی تھی محلے بھر کا
پھونک ڈالا ہے اسے بھوک نے ایندھن کی طرح

مسئلہ موت نہیں جینے کے انداز کا ہے
لوگ زندہ ہے مگر جسم ہےمدفن کی برح

کچھ حسیں ہوتے ہیں بس دور سے تکنے کے لے

ہیرا کتنا ہی حسیں ہو، ہے تو اک پتھر ہی
منہ میں ڈالو گے تو پچھتائو گے جاناں سن لو
کچھ حسیں ہوتے ہیں بس دور سے تکنے کے لے

محرم

چند افکار لیے پھرتا ہوں گلیوں گلیوں
کوئی محرم ہی نہیں کوئی شناسا ہی نہیں

آئینہ بن کے مرے سامنے آجاتے ہو

تم سے مل کر بھی تمہیں مل نہیں پاتا ہوں میں
آئینہ بن کے مرے سامنے آجاتے ہو

ایک رونق سی لگی رہتی ہے یادوں میں اب
کبھی آہٹ کبھی لہجہ ، کبھی خود آتے ہو

Friday, March 16, 2012

کہ ایک شخص

نہ جانے کون سی نیکی ہے میرے کام آئی
کہ ایک شخص مجھے جنتوں میں لے آیا

Thursday, March 15, 2012

جا مرے دوست تجھے میں نے خدا کو سونپا

کون ایسا ہے کروں تجھ کو حوالے جس کے
جا مرے دوست تجھے میں نے خدا کو سونپا

زندگی ایک تھی تقسیم ہوئی لاکھوں میں
حوصلہ باقی ہے وہ تیری جفا کو سونپا

تفریق

 علی اصغر عباس کے لیے
میں بھی کبھی جوان تھا اور خوبرو بھی تھا
کچھ سال میری عمر سے تفریق کرکے دیکھ

Monday, March 12, 2012

تم دل کو چھو گئے ہو عقیدت کی آڑ میں

عادت سی ہو گئی ہے محبت کی آڑ میں
تم دل کو چھو گئے ہو عقیدت کی آڑ میں

تم کوجو ہو پسند وہی نام دیجیے
اک رشتہ مجھ کو چاہیے الفت کی آڑ میں

میں جانتا ہوں آپ کو پانا محال ہے
خوش فہم دل مگر ہے مروت کی آڑ میں

تم کتنے قیمتی تھے یہ مجھ سے تو پوچھتے
کیوں خود کو بانٹ آئے ہو قسمت کی آڑ میں

اک لطفِ بے مثال تری جستجو میں ہے
اک ربطِ لاجواب ہے فرقت کی  آڑ میں

Saturday, March 10, 2012

رفتہ رفتہ

پہلے پہلے تو وہ پہچان بنا تھا میری
رفتہ رفتہ لے گیا نام و نشاں تک میرا

خلوص

مرا خلوص ہی قاتل مری حیات کا تھا
میں لڑجھگڑ کے سبھی عہد توڑآیا ہوں

Friday, March 9, 2012

میں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہوں اب

تجھے یہ کیسے بتائوں مری حقیقت کیا
میں اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتا ہوں اب

تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے

جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرہ منعقدہ 9 مارچ 2012 میں کہی گئی  غزل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائے کیا لوگ تھے اس دل میں اترنے والے
حجلہِ یاد میں دن رات سنورنے والے

آگ سے راکھ ہوئے عشق میں جلنے والے
اب وہ جذبے ہی کہاں جاں سے گزرنے والے

ہائے اب خاک کی ڈھیری میں سمٹ آئے ہو
تم تو ہر رنگ میں لگتے تھے بکھرنے والے

ہم سے کچھ آس نہ رکھو کہ نبھا پائیں گے
ہم تو ہیں کانچ کے برتن وہ بھی گرنے والے

ہم ڈسے ہوئے محبت کے وفا کے سچ کے
اب ہیں اخلاص بھری آنکھ سے ڈرنے والے

پہچان

پہلے پہلے تو وہ پہچان بنا تھا میری
رفتہ رفتہ لے گیا نام و  نشاں تک میرا

میں چند سال بڑا ہوں

میں چند سال بڑا ہوں سو اتنا حق دے مجھے
جہاں جہاں میں گرا تھا وہاں سے روکوں تجھے

کہیں سے آنا ہے ان کا، کہیں کو جانا ہے

محبتوں میں گرا ہوں میں ایک پل کی طرح
کہیں سے آنا ہے ان کا، کہیں کو جانا ہے

پل = brigde

Thursday, March 8, 2012

لوگ

زندگی ظلم کرے کتنا ہی مارے پیٹے
لوگ بچے ہیں کھلونوں سے بہل جاتے ہیں

درد سے جھولی بھرے لفظوں کو منہ میں ڈالے
لوگ بازار میں آجاتے ہیں اشیا کی چرح

چند ملزوم سے رشتے ہیں تعارف کے لیے
ورنہ ہر شخص ہی تنہا ہے ازل سے اب تک

سب تگ و دو ہے فقط پیٹ ہی بھرنے کےلیے
پھر بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت کام کیا

Monday, March 5, 2012

متفرق خیا لات- آ کبھی دل میں مرے اور یہ ویرانی دیکھ

تو نے دیکھی ہے مرے چہرے کی رعنائی بہت
آ کبھی دل میں مرے اور یہ ویرانی دیکھ

نہ کوئی پیڑ نہ بادل نہ کوئی محرمِ دل
ایسی تنہائی کہ سایہ بھی لگے اجنبی سا

میں وہ خوش بخت کہ رہتا ہوں سدا یاروں میں
دل وہ بدبخت کے مدت سے ہے تنہا تنہا

تو مری زیست کا حاصل ہے مرے اچھے دوست
لیکن افسوس کہ اب آ کے ملا ہے مجھ کو

میں بہت خوش ہوں ترے ساتھ مرے ہمراہی
ہے یہی خوف کہ اب موڑ نہ آجائے کہیں

اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

اردو انجمن کے لیے طرحی غزل
مصرع طرح = اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

یوں تو امکاں نہیں محبت کا
کوئی کیا کر لے دل کی عادت کا

زخمِ جاں کا علاج مت کیجیو
میں تو رسیا ہوں اس اذیت کا

کاش تو دل میں جھانک کر دیکھے
لفظ کافی نہیں محبت کا

اب تو دھڑکن بھی سوچ کر بولے
اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

دل بھی کھوٹا زبان بھی پھیکی
رابطہ ہے فقط مروت کا

ایک خالی مکان میرا وجود
منتظر ہے تری سکونت کا

کل کی کس کو خبر کہاں ہوں ہم
ہے غنیمت یہ وقت قربت کا

خرید پایا ہوں روٹی کے چند ہی لقمے

میں اپنی زیست کے سب خواب بیچ کر ریحان
خرید پایا ہوں روٹی کے چند ہی لقمے

سبب

تمہارے ساتھ تعلق کا ایک ہی ہے سبب
تمہاری آنکھ میں جو خواب ہیں وہ میرے تھے

Friday, March 2, 2012

تساہل

وہ کئی سال سے ہے ساتھ مگر کچھ ایسے
ایک مدت سے وہ پے ساتھ مگر کچھ ایسے
جیسے الماری میں ہوں پچھلے مہینوں کے رسالے
جیسے الماری میں ہوں پچھلے برس کے اخبار
اک تساہل ہے کہ اب تک ہیں پڑے کمرے میں

Thursday, March 1, 2012

ستم ظریف تھا ساقی

علی اور ادریس بھائی کے لیے

میں اوک لے کے جو آیا کہ چند گھونٹ پیوں
ستم ظریف تھا ساقی، انڈیل دی ہے سبو

بیٹھ جائو ذرا دیر کو تم

سب بھلائو ذرا دیر کو تم
گنگنائو ذرا دیر کو تم

ہم زمانے سے اٹھنے لگے ہیں
بیٹھ جائو ذرا دیر کو تم

پھر بلانے کی ضد نہ کریں گے
آج آئو ذرا دیر کو تم

اپنی دنیا میں رہتے سدا ہو
دل میں آئو ذرا دیر کو تم

آسماں سے ملا ہے یہ رشتہ
گر نبھائو ذرا دیر کو تم

روٹھ کر تم چلے جانا بے شک
پر ستائو ذرا دیر کو تم

Wednesday, February 29, 2012

رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

۲۴ جنوری ۲۰۱۲- جدید ادبی فورم میں کہیں گئی فی لبدیہ غذل- طرح مصرع : "رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی"
ہم التزام کے عادی تھے آشنائی میں بھی
سو لطف آیا نہ دل کو تری رسائی میں بھی

وفا کے نام پہ ہم نے تو قید ہی کاٹی
کہ ایک ضبطِ مسلسل رہا جدائی میں بھی

میں دل کی انگلی کو تھامے خموش چلتا رہا
وہ لین دین کا قائل تھا آشنائی میں بھی

میں اپنے درد کی تشہیر کرتا رہتا ہوں
کہ ایک طرزفغاں ہے یہ بے نوائی میں بھی

بس ایک بار اسے پیار سے کوئی دیکھے
رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

ندامتوں میں گرا ہوں جھکا سا رہتا ہوں
کبھی تھا مجھ کو بہت زعم پارسائی میں بھی

وہ چھوڑ جائے مگر اس کو کوئی سمجھائے
کوئی سلیقہ تو ہوتا ہے بے وفائی میں بھی

متفرق خیلات - دیکھنے کو تو مرے ہاتھ میں ہے جام مگر

دیکھنے کو تو مرے ہاتھ میں ہے جام مگر
کون جانے کہ فقط پیاس بھری ہے اس میں

بانٹنے والے تجھے لوٹ کے آنا ہوگا
پہلی باری میں ملا مجھ کو لفافہ خالی

اس قدر دھوکے ملے چہرہِ انسانی سے
اب توجی کرتا ہے جنگل میں بسیرا کر لیں

زخم اوروں کو دکھا نا تو ہے ذلت اس کی
 دل اگر چوٹ بھی کھائے تو چھپا جاتا ہے

درد کتنا ہی بڑھے آہ نہ منہ سے نکلے
مجھ کو ہمدردیِ احباب سے خوف آتا ہے

Tuesday, February 28, 2012

الائو سانس کا جلتا

الائو سانس کا جلتا ہے سخت محنت سے
میں اپنے ذات سے نمٹوں تو آپ کو دیکھوں

مفردات

غمِ معاش میں الجھے ہیں روزوشب ایسے
نہ زندگی سے تعارف نہ موت کی ہی خبر

یہ دل تو لے کے چلا تھا تمہاری سمت مگر
ضرورتوں نے مرے راستے بدل ڈالے

بہت سے لوگ ہیں جن سے ملن ضروری ہے
مگر یہ سانس کی ڈوری کہ باندھ رکھتی ہے

گرآپ کہتے ہیں اچھا تو دوست یوں ہی سہی
یہ آئینہ تو مجھے سوگوار رکھتا ہے

Thursday, February 23, 2012

راکھ کو آگ لگائے

اپنی محرومی کا بدلہ تو غریبوں سے نہ لے
راکھ کو آگ لگائے گا تو کیا پائے گا

تجھ کو ادراک نہیں

آزمائش ہے ترے ظرف کی یہ ظلم نہیں
تجھ کو ادراک نہیں خاص نظر میں ہے تو

Wednesday, February 22, 2012

میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

گناہ کر نہیں سکتا، ثواب کرتا نہیں
میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

علی بھائی کی اصلاح

گنہ کے باب میں نہ ہی درِ ثواب میں ہوں
میں خواہشوں کا پجاری بڑے عذاب میں ہوں

مرے ارادے بھی کمزور میرا دل بھی غضب

مرے ارادے بھی کمزور میرا دل بھی غضب
میں ہار جائوں گا اے حسن امتحان نہ لے

Sunday, February 19, 2012

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے

بے خودی کا ہی سہاراہے  کہ جی پاتے ہیں
ہوش آتا ہے تو پتھر کے سے ہو جاتے ہیں

ہم ضمیر اپنے کو سولی پہ چڑھانے والے
خلوت ذات کے اوقات سے گھبراتے ہیں

آئینہ توڑدیا پھوڑ لیں آنکھیں اپنی
داغ چہرے کے مگر پھر بھی نظر آتے ہیں

دل یہ کالا ہوا اتنا کہ گنہ کر کے بھی
مطمئن رہتے ہیں آرام سے سو جاتے ہیں

ہم پہ تکیہ نہ کرو صدق و امانت کا کھی
ہم وہ بدذات جو خود آپ کو ٹھگ جاتے ہیں
یا
ہم وہ بدذات ہیں جو خود  کو بھی ٹھگ جاتے ہیں

Friday, February 17, 2012

میں آسماں جسے کہتا رہا

میں آسماں جسے کہتا رہا وہ نیل گگن
میری طرح کا خلا تھا نظر کا دھوکا تھا

متفرق خیالات

تیری چاہت پہ بضد ہوں مگر اس ضد کا کیا
میں بھی انسان ہوں تھک جائوں گا آخر اک دن

کتنے سالوں سے ترا نام بھی آیا نہ کہیں
یاد بھولے سے چلی آتی ہے مرضی اس کی

شمع کتنی بھی جلے راکھ مقدر اس کا
شعلہ کتنا بھی چڑھے انت دھواں ہی ہو گا

تیرے آنے پہ بہت خوش ہوئے زندہ ہی رہے!
ماتمِ ہجر بھی ہوگا تو کہاں تک ہو گا

اس قدر خوف محبت سے ہے دل میں کہ اب
چاہ کر بھی یہ محبت نہیں ہو گی تجھ سے

پھول جنت سے گرے ہیں کہ حسیں چہرے ہیں
حسنِ انسان سے بڑھ نہیں جلوہ کوئی

Thursday, February 16, 2012

بکھرے خیالات

بساط کیا ہے بشر کی ؟ بشر سے آس نہ رکھ
برسنا چاہے اگر تو تو بارشوں سا برس

حیات مہنگی ہے کتنی، معالجوں کو پتہ
جو سانس سانس پہ قیمت وصول کرتے ہیں

دوائیاں تو میں برسوں سے کھا رہا تھا مگر
شفا ملی ہے مجھے صرف تیرے لہجے سے

گناہ کرتا رہوں اور ساتھ توبہ بھی
خدا رحیم بہت ہے پر اتنا بھولا نہیں

تھا زعم ہم کو بہت اپنی پارسائی پر
بس ایک لمحے کی سازش نے بے زبان کیا

میں کانپ جاتا ہوں دیکھوں جو بے بسی اپنی
غرور پھر بھی ہے اتنا خدا کہوں خود کو

بہت سا پیارجو اب تک تہہِ زبان رہا
نکلتا رہتا ہے دل سے دعائوں کی صورت

Tuesday, February 14, 2012

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

اردو انجمن کا فی البدیہ طرحی مشاعرہ

درد رہتا ہے نہ سکھ چین سدا ہوتا ہے
سب چلے جاتے ہیں بس نامِ خدا ہوتا ہے

وقت دریا خس و خاشاک ہیں ہم تم
دیکھتے دیکھتے ہر نقش ہوا ہوتا ہے

موت نے دانت نکالے ہیں میں سہما سا پھروں
زندگی جب بھی تجھے چاہوں دغا ہوتا ہے

یہ محبت جو زمانے میں بہت عام سی ہے
اس محبت میں بشر اپنا خدا ہوتا ہے

جسم کو جسم سے مطلب ہے خلاصہ یہ ہے
باقی تمہید ہے تمہید سے کیا ہوتا ہے

عشق بھی حسن سے وابستہ ہے سائے کی طرح
حسن ڈھلتا ہے تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے

شعر لکھتا ہوں تو خامے سے اٹھیں ٹیسیں سی
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

جان دے کر بھی بچانا یہ ثقافت لوگو

چہرہ پردے سے ڈھکا نظریں ہیں نیچی نیچی
یہ مری قوم کی بیٹی کی ہے صورت لوگو

غیر نے نقب زنی کی ہے مری رسموں ہر
جان دے کر بھی بچانا یہ ثقافت لوگو

تکلیف

تجھ کو اپنانے میں مجھ کو تو کوئی عذر نہیں
لیکن اس دنیا کو ہو جائے گی تلکیف بہت

کوئی آئے گا

کوئی آئے گا مرے پاس تو کیوں آئے گا
ایک ہی دل تھا جو اب ٹوٹ چکا مر بھی چکا

جگجیت سنگھ کی یاد میں---


 جگجیت سنگھ کی یاد میں---

عمر بھر جاگتے رہنا تھا مقدر جس کا
سوگئی آج وہ آواز ہمیشہ کے لیے

وہ کوئی فرد نہیں شہر تھا دل والوں کا
اس کے مر جانے سے ویران ہوئے لاکھوں دل

وقت کی کشتی

ہجر بھی وصل بھی چاہت بھی وفا بھی دل بھی
آنکھ بھہ پونٹ بھی ہونٹوں سے لٹکتا تل بھی
وقت کی کشتی میں بیٹھے ہیں چلے جائیں گے سب!

کوزہ گر تو نے اگر پیار سے جوڑا ہوتا

چاہنے سے ہی کوئی شخص جو اپنا ہوتا
کیسے ممکن تھا مرا خواب پرایا ہوتا

لوگ اپنے ہی مسائل میں مگن بھی گم بھی
تو بھی اس بھیڑ میں ہوتا تو اکیلا ہوتا

مسئلہ جینے کا درپیش کبھی خوفِ اجل
مل بھی جاتا وہ اگر کرب نہ تھوڑا ہوتا

آدمی جذبہِ بےتاب کی مٹی سے بنا
رزقِ ممنوع نہ کھاتا تو بھی ایسا ہوتا

کارواں ساتھ سہی درد ہیں اپنے اپنے
تو زمانے سے نبھاتا بھی تو تنہا ہوتا

میں بگولے کی طرح پھرتا نہ گلیوں گلیوں
کوزہ گر تو نے اگر پیار سے جوڑا ہوتا

خواب بوڑھے بھی تو ہو جاتے ہیں مرتے بھی ہیں
انتظار آپ کا ہوتا بھی تو کتنا ہوتا
http://www.facebook.com/photo.php?fbid=175743885868384&set=oa.361520293865926&type=1&theater