Monday, September 3, 2012

اور کوڑی میں بھی بکتے نہیں محبوب یہاں

کس قدر مہنگی ہے خوابوں کی مسافت اے دوست
کس قدر سستی ہے تعبیر اگر مل جائے

ہائے جس شکل کو تاروں میں کہیں ڈھنونڈتے تھے
وہ میرے پائوں میں بیٹھی تھی پکڑ کر کاسہ

اس کو معلوم نہ تھا اس کا دریدہ سا بدن
دو جہانوں سے بھی افضل تھا مرے دل کے لیے

اور وہ میلی کچیلی سی قبائے بے رنگ
کہکشائوں سے بھی پیاری تھی مری آنکھوں کو

میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ پتھر سی نگہ
نہ کسی دل نہ کسی عشق سے کچھ واقف تھی

اس کی اکتائی ہوئی سانسوں میں مرنے کی طلب
اس کے بیزار سے چہرے پہ لکھا تھا روٹی

میں نے اک چپت لگائی وہیں اپنے دل پر
اور اس کاسے میں کچھ سکے گرا کر بے تاب


لوٹ آیا کسی ہارے ہوئے جنگجو کی طرح
!!پھر کسی خواب کی  ناکام تمنائوں میں


حسن جو آنکھ کے اندر ہے وہ منظر میں کہاں
مول جو عشق لگاتا ہے وہ دل ہی جانے

ورنہ مٹی میں ملا دیتی ہے دنیا سب کو
اور کوڑی میں بھی بکتے نہیں محبوب یہاں

No comments:

Post a Comment