Saturday, May 12, 2012

سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

سمجھوتا زندگانی سے کرنا پڑا مجھے
آخر ہوا کے ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے

میں شیر دل تھا رسمِ زمانہ سے لڑگیا
لیکن یہ جنگ جیت کے مرنا پڑا مجھے

جس کو حریف جان کے تلوار تھا می تھی
اس کا حلیف دیکھ کے جھکنا پڑا مجھے

یہ کیسی دو رخی ہے کہ بچپن سے جو پڑھا
ہو کر بڑا اسی سے مکرنا پڑا مجھے

"لالچ بری بلا" ہو کہ "سچ بول کا ثمر"
 وہ سب نصاب پھر سے پرکھنا پڑا مجھے

چاہت کا کوئی ربط عداوت نہ دوستی
سینے سے دل نکال کے رکھنا پڑا مجھے

No comments:

Post a Comment