Thursday, May 31, 2012

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو

اگر سمیٹنا چاہو سمیٹ لو مجھ کو
بس ایک تم ہی مجھے پھر سے جوڑ سکتے ہو
وگرنہ گردِ زمانہ کو آنکھ میں بھر کر
کچھ ایسے بکھروں گا صحرا میں جابجا اے دوست
مرے وجود کا ذررہ بھی مل نہ پائے گا
سو جس کے ہاتھ لگا جتنا اتنا رکھ لے گا
حریص لوگ مجھے ایسے کاٹ کھائیں گے
کہ جیسے مالِ غنیمت بٹے ہے حصوں میں

No comments:

Post a Comment